صرف کالا خضاب لگانا


19۔ صرف کالا خضاب لگانا
عن ابن عباس    قال : قال رسول اللہ ﷺ : ((یکون قوم یخضبون فی آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لا یریحون رائحتہ الجنۃ))
سیدنا ابن عباس   سے مروی ہے وہ بیان  کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آخری زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے جیسا سیاہ رنگ کا خضاب لگائیں گے ایسے لوگ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گے۔"
(صحیح ابی داؤد)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

رسوم رواج کیسے بنتے ہیں؟



مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

حلوہ بیضہ مرغ


حلوہ بیضہ مرغ
انڈے دیسی: 8عدد
گھی دیسی :آدھ کلو
بیسن خالص: ایک پاؤ
کشمش: آدھ پاؤ
چینی حسب ضرورت
ترکیب تیاری: سب سے پہلے تھوڑے سے گھی میں بیسن کو سوجی کی طرح بھون لیں اور الگ رکھ لیں پھر باقی گھی میں کشمش اور کچے انڈے توڑ کر پکائیں۔ جب پکنے کی خوشبو آجائے تو بھنا ہوا بیسن اور چینی ملا کر اتار لیں ٹھنڈا ہونے پر جم جائے گا۔ بس تیار ہے۔
مزاج: مقوی ہے۔ مزاج گرم ہے۔
مقدار خوراک: 50 گرام صبح ، 50 گرام شام روزانہ کھائیں۔ جب ختم ہوجائے تو اور تیار کرلیں۔ چھ ہفتے مکمل کورس کریں۔
فوائد:
یہ حلوہ جسم میں گوشت کی مقدار بڑھانے کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔ پولیو کے مریضوں کو کھلانے سے ان کی ٹانگوں میں بھی طاقت آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ یہ حلوہ مقوی حافظہ اور کمزوری نظر کے لئے بھی مفید ہے ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بلا وجہ عورت کا طلاق طلب کرنا


18۔ بلا وجہ عورت کا طلاق طلب کرنا
عن ثوبان   ان رسول اللہ ﷺ قال: ((ایما امراۃ سالت زوجھا طلاقاً من غیر باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ))
سیدنا ثوبان   سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس عورت نے اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگی اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔"
(صحیح الترمذی)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

عقل مند عورت کی ذہانت مرد کے دل کی چابی ہے

 تحریر: عادل سہیل ظفر
عقل مند عورت کی ذہانت مرد کے دل کی چابی ہے :::::::سب مَرد ایک جیسے نہیں ہوتے ، دوسرے اور کچھ واضح الفاظ میں یہ کہا جانا چاہیے کہ سب ہی مردوں کے دِل ایک جیسے نہیں ہوتے ، کچھ مَرد ایسے ہوتے ہیں جِن کے دِل تک رسائی صِرف محبت آمیز چند الفاظ ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے ، اور کچھ مَرد ایسے ہوتے ہیں جو حُسن جمال کے پیکروں کے لیے بھی مشقت آزما کوششوں کا میدان کھول دیتے ہیں اور قابو ہی نہیں آتے ، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جِن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کے دِل کی راہ اُن کی جیب میں سے ہوتی ہے ، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جِن پر یہ بات پوری ہوتی ہے کہ اُن کے دِل کا دروازہ ان کے معدے میں ہوتا ہے ، کسی مَرد کو پہنچاننا اور پہچان کر اس کے دِل تک پہنچنا یقیناً ایک عقل مند عورت کا ہی کام ہے ، جو اپنے خاوند کے دِل میں داخل ہونے کا راستہ اپنی عقل مندی سے جان لیتی ہے اور پھر مزید عقل مندی اور ذہانت و فراست کے ذریعے اپنے خاوند کے دِل میں براجمان ہو جاتی ہے ، ایسی عورت اپنے اخلاق ، کردار اور ذات کو انہی انداز و اطوار میں ڈھال لیتی ہے جو اُس کے خاوند کی دِل کے ہر دریچے و در کو اس کے لیے کھول دیتے ہیں اور وہ کسی روکاٹ اور مشکل کے بغیر اس میں داخل رہتی ہے ، مَرد کی فطرت کے مطابق وہ عورت اپنے خاوند کی ہر جائز طلب پوری کرنے میں چاک و چوبند رہتی ہے اور اسے یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ وہ اس کے لیے بہت أہم ہے جِس کے نتیجے میں وہ شخص خود ایک ذمہ دار شخصیت جاننے لگتا ہے اور اپنی بیوی کی محبت کو پہچاننے لگتا ہے اور اس پر اعتماد کرنے لگتا ہے اور ایک یقنی نتیجے کی صُورت میں اس سے محبت کرتا ہے ، اب اگر کوئی عورت اپنی کج عقلی اور بد اخلاقی کی بنا پر معاملہ الٹا کیے رکھے اور اپنے خاوند کا اعتماد حاصل کرنے ، اس کی خدمت کرنے ، اس کو اپنی زندگی کی أہم شخصیت بنانے کی بجائے زبردستی اس سے اپنا آپ منوانے کی کوشش کرے، سچ بات کرنے کی بجائے اپنی خواہشات اور اپنے خیالات کو منوانے کے لیے جھوٹ بولے ، اچھائی کی راہ میں خاوند کی حوصلہ أفزائی کرنے کی بجائے جیسے بھی ہو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ہی مطالبہ رکھے،خاوند کی پریشانی یا تنگی کا خیال کیے بغیر اپنی خوشیوں اور آسانیوں کے حصول کا مطابہ ہی رکھے ، تو یقیناً وہ اپنے خاوندکے لیے ایک نا پسندیدہ ہستی ہی بنے گی ، لیکن اگر وہ پہلے والے معاملے پر عمل پیرا ہوتی ہو تو ان شاء اللہ جلد ہی وہ اپنے خاوند کو اپنی انگلی میں انگوٹھی کی طرح اپنے ساتھ پائے گی ، اِن شاء اللہ ،
مَردوں کے دِلوں کی چابیوں میں سے ایک چابی گھریلو مشکلوں اور کاموں سے مَرد کو دُور رکھنا بھی ہے ، ایسے کام جو خالصتاً عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں ، ایسے کاموں میں مَردوں کو شامل نہ کرنا اور ان کو ایسے کاموں سے دُور آرام کی حالت مہیا کرنا ، اور گھر میں داخل ہوتے ہی کسی مشکل یا کام کی خبر نہ کرنا ، عموماً مَردوں میں گھر میں رہنے کی رغبت پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے ، اور خاوند کو اپنے باہر کے معاملات بھی بیوی کے ساتھ ذِکر کرنے کے اسباب میں سے ہے جو میاں بیوی کے ایک انوکھے اعتماد اور محبت کو اجاگر کرنے والا عمل ہے ،اِن شاء اللہ ،
اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر گھر میں کوئی مشکل یا پریشانی واقع ہو ، یا کوئی ایسا کام آن پڑے جو مَرد کے بھی مشکل اور بھاری ہو اور بیوی اس میں کچھ مدد کرنے کی صلاحیت نہ بھی رکھتی ہو تو بھی وہ خاوند کی مدد کے لیے خود کو پیش کرے ، اس کو اچھے مشورے دے ، اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کسی طور راحت و سکون کا انتظام کیے رکھے ، ایسا کرنا خاوندکو اُس کے بارے میں اُس کی بیوی کی محبت ، عقل مندی ، خوش اخلاقی اور دردمندی کا گرویدہ بناتا ہے ، باذن اللہ ،
کچھ مَرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو حاکم و سربراہ کی حیثیت میں دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ، ایسے مَردوں کے دِلوں کا دروازہ صِرف ان کی اطاعت سے ہی کھل جاتا ہے کہ بیوی ہر معاملے میں خاوند سے اجازت طلب کر لیا کرے ، اور اس کی بات ماننے میں زیادتی رکھے اور اس کے بات نہ ماننے میں کمی رکھے تو نہ صِرف وہ اس کے دِل میں پہنچ جاتی ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اُس سے اپنی بات اس طرح منوانے لگتی ہے کہ وہ اُسے اپنا حکم ہی سمجھتا ہے ،
گھر پر اپنی اپنی حکومت کے لیے بحث مباحثے ، لڑائی جھگڑے اور زور آزمائی مَرد و عورت کے مابین محبت کے لیے زہر ء قاتل سے کم نہیں ہوتے ، عقل مند عورت ہمیشہ ان کاموں سے اجتناب برتتی ہے اور اگر اس کا خاوند ہی پہل کرنے اور زیادتی کرنے والا ہو تو بھی صبر کرتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا خاوند ان مَردوں میں سے ہے جو تند روئی اور تلخ کلامی برداشت نہیں کرتے ، اس کے صبر کے نتیجے میں اِن شاء اللہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ عملی طور پر گھر کی حاکم بن جاتی ہے اور خاوند بھی اس پر راضی ہوتا ہے اور اس سے محبت رکھتا ہے ،
قصہ مختصر پتے کی بات یہ ہے کہ کسی مَرد کے دِل تک پہنچنا اور اس میں گھر کرنا کسی عقل مند اور ذہین عورت کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ سب مسلمان خواتین کو ان کی گھر گھرہستی اور گھر والے کو مثبت انداز میں سنبھالے رکھنے کی توفیق دے ۔ و السلام علیکم۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

اللہ نہیں ہے خُدا

 تحریر: عادل سہیل ظفر
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدْہ، وَ نَستَعِینْہ، وَ نَستَغفِرْہ، وَ نَعَوْذْ بَاللَّہِ مِن شْرْورِ انفْسِنَا وَ مَن سِیَّااتِ اعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہْ فَلا مْضِلَّ لَہْ وَ مَن یْضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہْ ، وَ اشھَدْ ان لا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لا شَرِیکَ لَہْ وَ اشھَدْ ان مْحمَداً عَبدہ، وَ رَسْو لْہ، ۔بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُسکی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُسکے رسول ہیں : اللہ کی توحید یعنی واحدانیت میں سے ایک اُسکے ناموں اور صفات کی واحدانیت ہے ، جِسے ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کہا جاتا ہے ، اِس مضمون میں ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک گھناؤنی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہ رہا ہوں جِس کا شکار اُردو اور فارسی بولنے والے مسلمان ہو چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کِسی تعصب کاشکار ہوئے بغیر صحیح بات سمجھنے قُبُول کرنے اوراُس پر عمل کرتے ہوئے اُسے نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے بارے میں حُکم دیتے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا و لِلَّہِ الاسماءَ الحُسنیٰ فادعُوُہُ بھا وَ ذَروا الَّذین یُلحِدُونَ فی اَسمائِہِ سَیجزُونَ مَا کانُوا یَعمَلُونَ "اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں لہذا اللہ کو اُن ناموں سے پکارو اور جو اللہ کے ناموں میں الحاد ( یعنی کج روی ) کرتے ہیں اُنہیں ( اُنکے حال پر) چھوڑ دو ( کیونکہ ) بہت جلد یہ اپنے کئیے (ہوئے اِس الحاد )کی سزا پائیں گے" سورت الاعراف / آیت180 ، اور فرمایارَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرضِ وَمَا بَینَہُمَا فَاعبُدہُ وَاصطَبِر لِعِبَادَتِہِ ہَل تَعلَمُ لَہُ سَمِیّاً )( آسمانوں کا اور زمیں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں ہے سب کا پالنے والا ( اللہ ہی ہے ) لہذا تُم (صِرف ) اُس کی ہی عِبادت کرواور اُس کی عِبادت کے لیے صبر اختیار کیئے رہو ، کیا تُم جانتے ہو کہ کوئی اُس کا ہم نام ہے؟ ) سورت مریم / آیت ٦٥ ،یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام نہیں ، اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نام نہیں جو اللہ نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بتایا ہو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے ناموں کو یاد کرنے اور اُنکے معنیٰ اور مفہوم کو جاننے کے لیے ترغیب دیتے ہوئے فرمایااِنَّ لِلَّہِ تِسعَ و تِسعُونَ اِئسماً مائۃً اِلَّا واحدۃ مَن احصَاھَا دَخَل الجنَّۃَ )( بے شک اللہ کے ننانوے نام ہیں ، ایک کم سو جِس نے ان ناموں کا احاطہ کر لیا ( یعنی اِنکو سمجھ کر یاد کر لیا اور اِن کے مُطابق عمل کیا ) وہ جنّت میں داخل ہو گیا ) صحیح البُخاری حدیث / 2736 ، 7392، اللہ تعالیٰ اپنے اچھے اچھے نام ہونے کی خبر دِی ہے اور اُن ناموں سے پکارنے کا حُکم دیا ہے ، اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے ناموں کوگِن گِن کر بتایا ہے کہیں بھی کوئی عددی نام نہیں ہے ، کوئی ''' خُدا '''' نہیں ، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ ''' محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے ''' خُدا ''' ختم کر دئیے ۔ جی ہاں ، ''' خُدا ''' فارسیوں کا باطل معبود تھا ، جیسے ہندوؤں کا بھگوان ، اور فارسیوں میں بھی ہندوؤں کے بہت سے بھگوانوں کی طرح ایک نہیں تین ''' خُدا ''' تھے ، ایک کو وہ ''' خدائے یزداں اور خدائے نُور''' کہا کرتے تھے اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ نیکی کا خُدا مانتے تھے ، دوسرے کو وہ ''' خدائے اہرمن اور خدائے ظُلمات ''' اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ بدی کا خُدامانتے تھے ، اور تیسرے کو ''' خدائے خدایان ''' یعنی دونوں خُداؤں کا خُدا مانتے تھے ۔ آجکل ہمارےادیب اور شاعر حضرات ،بلکہ وہ لوگ جو دینی عالم کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علماء کی صفوف میں ہوتے ہیں ، اُنکی تقریروں اور تحریروں میں اللہ کی بجائے ''' خُدا ''' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اور اِس سے زیادہ بڑی غلطی یہ کہ معاملات کا ہونا نہ ہونا ، مرنا جینا ''' مشیتِ اللہ ''' کی بجائے ''' مشیتِ یزداں ''' اور ''' مشیتِ ایزدی ''' کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، اور ''' بارگاہِ اللہ ''' کی بجائے ''' بارگاہِ ایزدی ''' میں فریاد کرنے کی تلقین و درس ہوتا ہے، ایک صاحب کی دینی کتاب میں تو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ''' یزداں ''' کی بارگاہ میں دُعا گو دِکھایا گیا ہے ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے وقت یا اس کا ذکر کرتے وقت ان ناموں سے یاد کریں جو اس نے قرآن و حدیث میں بتائے ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کے نام کا ترجمہ ہے ''' خُدا ''' تو اُس سے پوچھنا چاہیئے مسلمانوں میں کون ایسا ہو گا جو اللہ کو اللہ کے نام سے نہیں جانتا ، اگر کوئی ہے بھی تو اُسے اللہ کی ذات کی پہچان کروانے کے لیے اُس کے ماحول و معاشرے میں پائے جانے والے معبود کے نام کے ذریعے اللہ کی پہچان کروانی چاہئیے یا اللہ کے نام سے ؟؟؟اِس فلسفے کے مطابق تو ، ہندوستان کے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ اللہ کو بھگوان کہیں ، اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ وہ اللہ کو (God)کہیں ، اور یہ خُدا سے بھی بڑی مصیبت ہے کیونکہ خُدا کی تو مؤنث نہیں لیکن (God) اور بھگوان کی مؤنث بھی ہوتی ہے ،اگر ترجمے والا فلسفہ درست مانا جائے تو پھر ہر علاقے کے مسلمان کو اپنے علاقے اور زبان میں اُس ہستی کا نام اللہ کے لیے استعمال کرنا درست ہو جائے گا جو اُس کے ہاں معبود یا سب سے بڑے معبود کے طور پر معروف ہے ، پھر اُس مسلمان کا اپنے اکیلے حقیقی اور سچے معبود اللہ کے ساتھ کیا ربط اور تعلق رہا ، اُس کی عبادات اور دُعائیں کہاں جائیں گی ؟؟؟ فاء عتبروا یا اولیٰ الابصار ::: پس عِبرت پکڑو اے عقل والو --------------------------------------
 اللہ تو معبودِ حق ہے نہیں ہے وہ خُدا ::: پھر اِسی پر ہی نہیں کِیا اُس قوم نے اِکتفاءاِک اہرمن ، خدائے ظُلمات یعنی خُدا شر والا ::: اللہ ہی خالق ہے خیر اور شر کا اکیلا و تنہاجو کچھ بھی ہوتا ہے ، ہوتا ہے بِمشیتِ اللہ ::: اللہ کو چھوڑ کر گر پُکارا جائے در بارگاہِ یزداںسُن ! بات کِسی اور کی نہیں فرماتا ہے خود اللہ ::: گر پُکارا کِسی اور نام سے تو اللہ نے دِیا حُکم الحاد کاخُدا تو معبودِ باطل تھا اِک قوم کا گَھڑا ہوا ::: اِس اِک کے ساتھ دو اور بھی رکھے تھے بَنادُوجا خُدائے نُور ، خُدا نیکی کا ، کہتے تھے اُسے یزداں ::: ہے ہر کام اُسکا خیر والا نہیں کرتا کام شر کاکیا ہو گی مشیتِ ایزدی ، جب کہ باطل ہے یزداں ::: کہاں جائے گی ؟ اور کیا قُبُول ہو گی وہ دُعاہیں اُسکے لیئے نام پیارے پیارے ، الاسما ءَ الحُسنیٰ ::: پس اِنہی ناموں سے عادِل تُو رہ اللہ کو پُکارتا
تحریر: عادل سہیل
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بد زبانی اور بد مزاجی رکھنے والا


17۔ بد زبانی اور بد مزاجی رکھنے والا
عن حارثۃ   بن وھب قال : قال رسول اللہ ﷺ : ((لا یدخل الجنۃ الجواظ ولا الجعظری))
سیدنا حارثہ   بن وہب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بدزبان اور بدمزاج آدمی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔"
(صحیح ابن داؤد)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

رعایا کو دھوکہ دینے والا حاکم


16۔ رعایا کو دھوکہ دینے والا حاکم
عن معقل  بن یسار قال : سمعت النبی ﷺ یقول: (( ما من وال بلی رعیۃ من المسلمین فیموت وھو غاش لھم الا حرم اللہ علیہ الجنۃ))
سیدنا معقل   بن یسار سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "مسلمان رعیت پر حکومت کرنے والا حاکم اگر اس حال میں مرا کہ وہ اپنی رعیت سے دھوکہ کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔"
(صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

عورت کا مرد کی مشابہت کرنا

15۔ عورت کا مرد کی مشابہت کرنا
عن ابن عمر  قال : قال رسول اللہ ﷺ ((ثلاثۃ لا یدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ والدیوث ورجلۃ النساء))
سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے والدین نافرمان، دیوث اور مرد کی مشابہت کرنے والی عورت، جنت میں نہیں جائے گی۔"
(صحیح الجامع الصغیر)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

طبی اصطلاحات حصہ اول


طبی اصطلاحات حصہ اول
محرک:۔ محرک ایسی غذا، دوا کو کہتے ہیں۔ جو کسی مفرد عضو کو سکون سے فعل میں لے آئیں۔
شدید:۔ محرک سے ذرا تیز اثر رکھنے والی ادویات کو شدید کہتے ہیں۔
ملین:۔   وہ دوا ہوتی ہے جس میں محرک و شدید اثرات کے ساتھ ساتھ فضلات کو خارج کرنے کی قوت بھی ہو۔
مسہل:۔ مسہل دوا میں محرک شدید، ملین اثرات کے علاوہ جلاب آور بھی ہوں۔ ہم مسہل دوا کی مقدار کو کم کرکے محرک ، شدید، اور ملین اثرات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
مقوی:۔ ایسی اشیاء کو کہتے ہیں جو کسی عضو کی طرف خون کو آہستہ آہستہ جذب کرنا شروع کردیں۔ ان میں اغذیہ، ادویہ اور زہر تک شامل ہیں۔ مثلاً اغذیہ میں گوشت۔ ادویہ میں فولاد۔ اور زہروں میں سنکھیا اور کچلہ، مقویات شامل ہیں۔  چونکہ ہر عضو کا علیحدہ علیحدہ مزاج ہوتا ہے اس لئے ان کی طبیعت رکھنے والی اشیاء ہی مقوی ہوسکتی ہیں۔
اکسیر:۔ اکسیر اس دوا کو کہتے ہیں جو نہ صرف فوراً خون میں جذب ہو کر اپنا اثر شروع کردے بلکہ ایک مدت تک اپنے شفائی اثر جسم میں قائم رکھے۔
ایسی ادویات کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی مرض مستقل یا دائمی صورت اختیار کرجائے۔ مثلاً شوگر، دائمی قبض، چھپاکی، سوزاک، خارش، اور چنبل وغیرہ ایسی علامات اس وقت ظاہر ہرتی ہیں جب کوئی خلط خون میں جمع ہوجائے اور پھر تکلیف کا سبب بن جائے۔
تریاق:۔ اس دوا کو کہتے ہیں جو کسی زہر کو باطل کردے یا پہلی حالت کو یک دم نئی حالت میں تبدیل کردے ۔ ایلوپیتھی اور ہومیو پیتھی میں اسے اینٹی ڈوٹ کہتے ہیں۔
مثلاً کھار (الکلی) کے مقابلہ میں ترشی (ایسڈ) ہے۔ اسی طرح افیون کے زہر کو کچلہ زائل کردیتا ہے۔ تریاق قسم کی ادیات کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی زہر سے یا کسی عضو میں ہونے والی مشینی تحریک سے موت واقع ہونے کا خطرہ ہو۔ مثلاً ہیضہ، نمونیا، سرسام اور خونی قے وغیرہ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

سونے کے برتنوں میں پینا


14۔ سونے کے برتنوں میں پینا
عن ام سلمہ  ان رسول اللہ ﷺ قال: ((من شرب فی الاء من ذھب او فضۃ فانما یجر جرفی بطنہ نارا من جھنم))
سیدہ ام سلمہ سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "جو شخص چاندی اور سونے کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔" (صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا


13۔ شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا
عن ابی ھریرۃ  عن النبی ﷺ قال: (( مااسفل من الکعبین من الازار ففی النار))۔
سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے ، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہوگا جہنم میں جائے گا۔" (صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

سنت نبویﷺ کو عام کریں

آ ؤ ایک کام کریں سنت نبویﷺ کو عام کریں۔
ہیلو نہیں:  السلام علیکم
او کے نہیں: ان شاء اللہ
بائے نہیں: فی امان اللہ
تھینک یو نہیں: جزاک اللہ
گریٹ نہیں: ماشاء اللہ
آئی ایم فائن نہیں: الحمد للہ
زبردست نہیں: سبحان اللہ
کہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

Inpage2.92

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) میں قانون شفاء


ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) میں قانون شفاء
دوسرا طریقہ علاج ہومیو پیتھی ہے۔ یہ حضرات بھی اپنے آپ کو سائینٹی فک اور جدید کہنے کے ساتھ ساتھ بے ضرر کہتے ہیں۔ اس میں سرے سے مرض کا تصور ہی نہیں ہے ۔ بس علامات کو ختم کرنے کے لئے دوا دی جاتی ہے جس کا تعلق نہ تو خون کے کیمیائی اجزاء کے ساتھ ہے۔ اور نہ ہی اعضاء کے افعال کے ساتھ ہے ان کی ادویہ اس قدر قلیل مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں کہ کسی چیز کے اضافے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی علامت کو ختم کرنے سے خون کے کیمیائی اجزاء میں ہرگز کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

طب قدیم میں قانون شفاء


طب قدیم میں قانون شفاء
اسی طرح طب یونانی کے حامل اطباء احضرات کا خیال ہے کہ طب قدیم ہی اصل اور قدرتی طریقہ علاج ہے جس میں یقینی اور بے ضرر شفاء ہے۔
اس کی بنیاد اخلاط اور کیفیات پر رکھی گئی ہے جب تک ان میں اعتدال قائم ہے اس کا نام صحت ہے اور ان کے اعتدال کے بگڑ جانے کا نام مرض ہے پھر ہر خلط کا مزاج مقرر ہے پھر تمام اخلاط کا جسم انسان میں اعتدال اضافی مقرر کیا گیا ہے جس پر انسانی صحت قائم ہے امراض کے علاج کی صورت میں صحت کے اسی مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بیماری سے ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ یہی صحت کا فطری قانون ہے۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ایلو پیتھی میں قانون شفاء


ایلو پیتھی میں قانون شفاء
اس وقت جس قدر بھی طریق ہائے علاج ہیں ان میں سب سے زیادہ ایلو پیتھی کا دور دورہ ہے کیونکہ یہ تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ماڈرن یا جدید اور سائینٹی فک اور سسٹو میٹک اور بے ضرر ہے اس میں شفاء حاصل کرنے کے لئے علامات کو ختم کرنے یا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سبب مرض جراثیم کو مانا گیا ہے۔ اور شفاء حاصل کرنے کے لئے ان جراثیم کو فنا کرنا ضروری سمجھتے ہوئے جراثیم کش ادویات دی جاتی ہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

قانون شفاء


اس دنیا میں جس قدر بھی طریق ہائے علاج پائے جاتے ہیں۔ سب کا دعوی یہی ہے کہ ان کا طریقہ علاج باقی سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ بعض تو یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ ان کے طریقہ علاج میں یقینی اور بے خطاء علاج کی خوبی پائی جاتی ہے۔لیکن سال ہا سال کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے  کہ شفاء منجانب اللہ ہے اور قوت شفاء و مرکز شفاء اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے اور اللہ کی مرضی و منشاء کے بغیر شفاء حاصل نہیں ہوسکتی اس لئے ہر حکیم اور عقل مند معالج مریض کو یہی کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ شفا ہو جائے گی۔ یعنی اگر اللہ کی مرضی و منشاء شامل حال رہی تو شفاء ہوگی ورنہ نہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

اسباب الامراض


"سبب مرض وہ ہوتا ہے جس کے مریض پر وارد ہونے سے مرض وارد ہوتا ہے۔ اور جب اس سبب کو دور کر دیا جائے تو مرض بھی ختم ہوجاتا ہے۔"
کسی بھی مرض کے علاج کے لئے مرض کے سبب کی صحیح تشخیص لازمی ہے۔اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جو سبب مرض پیدا کرے اور سبب دور ہوجائے تو مرض ختم نہ ہو۔
مثلاً ایک شخص نے تربوز کھا کر دودھ پی لیا جس سے اسے ہیضہ ہوگیا۔
اب ہیضہ کا سبب تربوز اور دودھ سے ایک طرف جسم میں رطوبات کا بڑھنا ہے، اور قے اور دستوں کی کثرت سے حرارت کا زیادہ خارج ہوجانا ہے۔ تو ایسے مریض کے علاج کے لئے ایک طرف تو جسم میں رطوبات کو کم کرنے کے لئے خشک غذائیں و دوائیں دینا پڑیں گی۔ اور دوسری طرف قے اور دستوں کی کثرت سے جسم سے جو حرارت ضائع ہوئی ہے اس کمی کو پورا کرنے کے لئے گرم غذائیں و دوائیں دینا پڑیں گی۔ لہذا عضلاتی غدی سے غدی عضلاتی یعنی غذائی چارٹ میں سے 3نمبر اور 4نمبر غذائیں دینے سے مریض چند گھنٹوں میں ہی صحت یاب ہوجاتا ہے۔
یہ درست علاج اس وقت ہی ممکن ہوگا جب معالج مرض کے حقیقی اسباب تک پہنچ جائے گا۔ اگر خدانخواستہ غلظ تشخیص سے غلط اسباب معلوم ہوجائے تو علاج بھی غلط تجویز ہوجائے گا اور مرض مزید بڑھ جائے گا، بلکہ بعض صورتوں میں تو مریض جان سے ہی ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔
مثلاً ہیضہ کے مذکورہ مریض میں ہیضہ کا سبب تربوز اور دودھ کی وجہ سے جسم میں رطوبات کا بڑھنا ہے اور جسم میں حرارت کی کمی بھی ہے۔ اب اگر مریض کو ٹھنڈی غذائیں و مشروبات دیے جائیں گے تو کیا ہوگا۔ نتیجتاً مریض کے جسم میں حرارت مزید کم ہوجائے گی، اور جسم میں رطوبات مزید بڑھ  جائیں گی۔  اور تکلیف زیادہ ہوجائے گی ۔۔۔۔اور۔
لہذا  کسی بھی مرض کا علاج کرنے سے پہلے صحیح سبب کا معلوم ہونا ضروری ہے۔

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

علاج برائے کمی حیض بوجہ کثرت حرارت


علاج با لغذا برائے کمی حیض بوجہ کثرت حرارت:
جب عورت کے خون میں حرارت پیدا ہوجاتی تو عضلات میں تحلیل شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت بھی حیض کم آتا ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ خون حیض شدید تکلیف سے تھوڑا تھوڑا آتا ہے۔
یہ دراصل رحم کی پیچش ہوتی ہے۔ اور اس کا علاج بھی وہی ہوتا ہے جو عموماً پیچش میں کیا جاتا ہے۔ اس سے رحم کی سوزش بھی ٹھیک ہوجاتی ہے۔
ایسی مریضہ کے لئے غذائی چارٹ میں سےنمبر 3 اور نمبر4 غذا سے بالکل پرہیز کرنا ہوگا۔ باقی چاروں قسم کی اغذیہ استعمال کرسکتے ہیں۔
اگر تکلیف زیادہ ہو تو ساتھ درج ذیل دوا بھی دے سکتے ہیں۔
ریوند خطائی، قلمی شورہ، جوکھار، زیرہ سفید ہر ایک 10 گرام
چینی 40گرام
پیس کر ملا لیں اور تین سے چھ ماشہ دن میں تین بار ہمراہ تازہ پانی۔

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

خانہ کعبہ کی تصویریں 1


مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

کمی حیض کی تشخیص اور علاج


کمی حیض کی تشخیص اور علاج
خون حیض کم آنے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
1۔ جسم میں رطوبات کی کثرت                      

2۔ جسم میں حرارت کی کثرت
1۔ جسم میں رطوبات کی کثرت
قارئین! جب جسم میں رطوبات کی بہت زیادہ کثرت ہوجائے تو حیض بہت ہی کم آتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات نشان بھی نہیں لگتا۔ اورخاص بات یہ ہے کہ تکلیف بھی بالکل نہیں ہوتی۔
اس مرض میں جسم میں رطوبات کی زیادتی کی وجہ سے خون کی کمی ہوجاتی ہے۔ جس سے رحم کے عضلات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ لہذا عضلات رحم خون حیض بھی خارج نہیں کرسکتے۔  اگر عضلات رحم میں دوا غذا سے تھوڑی سی تحریک یعنی گرمی پیدا کردی جائے تو حیض صحیح آنے لگتا ہے اور مرض دور ہوجاتا ہے۔
علاج بالغذا برائے کمی حیض بوجہ کثرت رطوبات:
اس قسم کی مریضہ میں رطوبات کی زیادتی ہوگئی ہے۔ لہذا حیض کھولنے کے لئے رطوبات کم کرنے والی غذا دوا کھلانی پڑے گی۔ جنہیں قانون مفرد اعضاء میں عضلاتی اعصابی یا عضلاتی غدی اغذیہ کہتے ہیں۔
جونہی جسم میں رطوبات کی کمی ہوگی فوراً حیض جاری ہوجائے گا۔ اگر خون کی کمی ہوگی تو وہ بھی پوری ہوجائے گی۔
ایسی مریضہ کے لئے غذائی چارٹ میں سے نمبر 1 اور نمبر 6 قسم کی اغذیہ سے بالکل پرہیز کرنا ہوگا۔
نمبر 2 اور نمبر3 اغذیہ کثرت سے استعمال کرنی ہونگی اور نمبر 4اور 5 معمولی مقدار میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اگر سردی کی وجہ سے اچانک حیض بند ہوگیا ہو تو گرم ریت کی ٹکور کریں۔ گرم گرم چائے اور گوشت کا شوربہ پلائیں۔
اگر دوا کی ضرورت ہو تو درج ذیل نسخہ استعمال کریں۔(یاد رہے کہ غذا کی پابندی کے بنا کوئی بھی دوا فائدہ نہ دے گی۔ )
مصبر 10 گرام                                                                     ہیرا کسیس 10 گرام                                                زعفران  5گرام
ترکیب تیاری: اول زعفران پیس لیں پھر ہیرا کسیس اور مصبر پیس کر ملا لیں پانی کی مدد سے چنے کے برابر گولیاں بنا لیں۔ یا درمیانے سائز کے کیپسول بھر لیں۔ 
حیض آنے کے دنوں سے ہفتہ قبل لونگ دارچینی کے قہوہ کے ساتھ دن میں تین بار استعمال کریں۔ اوپر دی گئی ہدایات کے مطابق غذائیں استعمال کرائیں۔ اللہ شفا دے گا۔
چند دنوں کے اندر اندر حیض کھل کر آنے لگے گا۔ اگر خون کی کمی ہوگی تو پہلے ماہ خون نہیں آئے گا۔ دوسرے ماہ تکلیف سے تھوڑا سا آئے گا۔ اور تیسرے ماہ بالکل صحیح مقدار میں آئے گا۔
یاداشت: اس نسخہ میں مصبر شامل ہے جو ہلکا سا جلاب آور بھی ہے۔ اگر دست والی کیفیت ہوجائے تو دو دن دوا بند کرکے پھر دن میں دو بار استعمال کریں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بے قاعدگی حیض میں تشخیصی غلطیاں


ہر عورت کے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی ہوتی ہے کہ اسے خون حیض کھل کر نہیں آتا بلکہ تھوڑا تھوڑا آتا ہے۔ اگر کھل کر آجائے تو میں ٹھیک ہوجاؤں۔ اس کی اس تکلیف کو رفع کرنے کے لیے معالج حضرات اصل سبب تلاش کرنے کی بجائے حیض زیادہ لانے کی دوا تجویز کریتے ہیں ۔ جس سے بعض اوقات تکلیف زیادہ ہوجاتی ہے۔
یاد رکھیے: کسی بھی مرض کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مرض کے سبب کا علاج کرنا چاہیے۔
مرض کا سبب دور ہوگا تو مرض کا علاج خود ہی ہوجائے گا۔ مثلاً اگر پاؤں میں کانٹا لگا ہے  اور کانٹا لگنے سے زخم ہوگیا ہے  تو وہاں مرہم پٹی نہیں کردینی چاہیے۔ پہلے زخم کی وجہ یعنی کانٹا ہٹانا چاہیے۔ بعد میں زخم کا علاج کرنا چاہیے۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ