غذا کس قسم کی کھانی چاہیے؟


غذا کس قسم کی کھانی چاہیے؟
قانون مفرد اعضاء کے تحت غذا تین قسم کی ہوتی ہیں۔

اعصابی غذا: جس سے دماغ و اعصاب تحریک و تیزی میں آجاتے ہیں اس میں دودھ گھی، مکھن ملائی، جلیبیاں، مربہ گاجر ، گلقند سبزیوں میں توری کدو، ٹنینڈے، پیٹھا، اروی ، بھنڈی توری ، سری پائے، پھلوں میں تربوز، کیلا ، امرود ، مٹھے، خربوزے، گنا وغیرہ شامل ہیں۔

عضلاتی غذا: جس سے جسم کے عضلات و قلب تحریک میں آجاتے ہیں۔ ان میں مربہ آملہ مربہ گاجر ، مونگ پھلی، چھوہارے، منقٰی، قہوہ لونگ دار چینی،
سبزیوں میں کریلے، بینگن، ٹماٹر، آلو، گوبھی، اچار پکوڑے، دہی بھلے، آلو چھولے، کوئی گوشت ، اوجھری، مرغ، بٹیر، وغیرہ
پھلوں میں انار، آلو بخارہ ، جامن وغیرہ شامل ہیں۔

غدی غذا: جس سے جسم انسان کے جگر و غدد تحریک و تیزی میں آجاتے ہیں۔ اس میں مربہ ادرک، مغز بادام، آم، شہد، کھجور، اجوائن پودینہ کا قہوہ، سبزی گوشت جس میں زیادہ تر بکری ، دنبہ کا گوشت شامل ہیں۔ سرسوں کا ساگ، تارا میرا، میتھی، پودینہ، ادرک، لہسن، پیاز، سرخ مرچ کی چٹنی، مسور کی دال،
پھلوں میں آم، انگور، چلغوزہ، اخروٹ، پپیتہ وغیرہ شامل ہیں۔

کوئی بھی مریض ہو اس کے جسم میں انہیں غذاؤں میں سے کسی غذا کی کمی ہوگی۔ لہذا انہیں میں سے کوئی ایک غذا تجویز کرنا پڑے گی۔
مثلاً کسی مریض کے جسم میں رطوبات بلغم بڑھ گئی ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں اس کے اعصاب و دماغ تحریک و تیزی میں ہیں۔ اس کے قلب وعضلات کمزور ہوگئے ہیں۔ جسے قانون مفرد اعضاء میں تسکین قلب و عضلات کہتے ہیں۔ لہذا معالج ایسے مریض کو عضلاتی غذا یعنی محرک قلب و عضلات کہتے ہیں۔ اس سے مریض کو نزلہ ریشہ ، زکام، بلغم کھانسی، دست، قے اور رطوبات کی کثرت میں کمی واقع ہوکر آہستہ آہستہ شفا ہوجائے گی۔
اسی طرح کسی مریض کے عضلات تحریک کی وجہ سے اس کے جگر و غدد کمزور ہو کر سکون اختیار کر گئے ہیں۔ ایسے مریض کو معالج، محرک غدد و جگر غذا تجویز کرے گا، جس سے سودا کی کثرت ریح دردیں، درد معدہ، اختلاج قلب وغیرہ تک غائب ہوجائیں گے۔

0 تبصرہ جات::

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔