::::::: نبی اور رسول میں فرق :::::::

بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مَن لَا نَبیَّ بَعدہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
تحریر: عادل سہیل ظفر
::::::: نبی اور رسول میں فرق :::::::

رسول اور نبی میں یقیناً فرق ہے ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کا ذکر الگ الگ فرمایا ہے ،
(((((وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ::: اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ ہی کوئی نبی ایسا بھیجا ہے کہ جب اس نے تلاوت کی ہو تو شیطان نے اس کی تلاوت میں وسوسے نہ ڈالے ہوں ، پس جو کچھ شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے منسوخ کر دیتا ہے )))))سُورت الحج /آیت 52،
عام طور پر یہ بات معروف ہے کہ نبی وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی ہو، لیکن اُسے اُس وحی کی تبلیغ کا حُکم نہ ہو ،
اور رسول وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی ہو اور اسے اُس وحی کی تبلیغ کا حُکم بھی دِیا گیا ہو ،
لہذا ہر رسول نبی ہوتا ہے ، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا ، اور اس طرح رسول ہونا ، نبی ہونے سے زیادہ أہم اور زیادہ ذمہ داری والا رتبہ ہوتا ہے ،
لیکن یہ بات دُرست نہیں محسوس ہوتی ، کیونکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی سُنّت اور اس کی حِکمت کے مطابق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک شخص کو وحی کرے جو صرف اُس شخص تک ہی محدود رکھے جانے کے لیے ہو اور اس کی تبلیغ یا دعوت دوسروں تک نہ کی جانی ہو ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک بھی اسی معاملے کی دلیل ہے کہ نبی پر کی جانے والی وحی کی بھی تبلیغ مقصود و مطلوب رہی ہے ، صرف اس نبی تک ہی محدود و مقید رکھے جانے کے لیے اُس پر وحی نہیں کی جاتی تھی ،
(((((عُرِضَتْ عَلَىَّ الأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلُ وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلاَنِ ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّهْطُ ، وَالنَّبِىُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ::: (سفرء معراج کے دوران) مجھے اُمتیں دِکھائی گئیں ، تو کسی نبی کے ساتھ ایک مَرد تھا ، اور کسی نبی کے ساتھ دو مَردتھے ، اور کسی نبی کے ساتھ دس سے زیادہ (اور چالیس سے کم) مَرد تھے ، اور کسی نبے کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا)))))صحیح البخاری/حدیث5752/کتاب الطِب/باب42،
لہذا زیادہ دُرست بات یہ ہے اِن شاء اللہ ، کہ رسول وہ ہوتا ہے جسے نئی شریعت دی گئی ہو ، اور نبی وہ ہوتا ہے جو اُس سے پہلے والے رسول کو دی گئی شریعت کی دعوت و تبلیغ کی تجدید کرتا ہو، جس کی مثال بنی اسرائیل میں مبعوث کیے جانے والے انبیاء علیہم السلام ہیں ، جو کہ موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی شریعت کی ہی دعوت و تبلیغ کرتے تھے ، اگر وہ دعوت نہ دیتے ہوتے اور ان پر ہونے والی وحی خفیہ رہتی تو پھر اللہ کے یہ فرامین مبارکہ کیا معنی رکھتے ہیں :::
(((((ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ::: ایسا اس لیے ، کہ وہ ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے اور نبیوں کو بغیر کسی حق کے قتل کیا کرتے تھے))))) سُورت آل عمران /آیت112،
(((((سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ::: جو کچھ یہ(یہودی) کہتے ہیں ، اور ان کا بغیر حق کے نبیوں کو قتل کرنا، ہم جلد ہی سب کچھ لکھ لیں گے))))) سُورت /آیت181،
یعنی جنہیں بنی اسرائیل والے یہودی قتل کرتے تھے ، انہیں نبی جاننے کے بعد اور ان سے اللہ کی آیات سن کے اُن آیات کا انکار کرنے کے بعد ہی قتل کرتے تھے ، پس یہ واضح ہوا کہ نبی کو تبلیغ کا حُکم ہوتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہودی ان نبیوں کو نہ جان پاتے اور نہ ہی اُن سے اللہ کی آیات سن کر اُن آیات کا انکار کرتے اور نہ ہی بدبخت یہودی نبیوں کو قتل کرتے ،
ان آیات مبارکہ اور حدیث شریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبیوں اور رسولوں علیھم السلام کی طرف کی جانے والی ایسی ہر وحی جو اللہ کے دِین سے متعلق ہو اُس کی تبلیغ کی جاتی رہی ، جی ایسی وحی جو کسی نبی یا رسول کے کسی ذاتی معاملے سے متعلق ہو، دینی احکام و عقائد سے متعلق نہ ہو اُس کے بارے میں یہ گُمان کیا جا سکتا ہے کہ اُس کی تبلیغ کا حُکم نہ ہوتا ہوگا ، مثلاً :::
آدم علیہ السلام کو تما م چیزوں کے نام سکھانے کے لیے اُن کی طرف کی جانے والی وحی،
اُن علیہ السلام کو توبہ کے کلمات سکھانے والی وحی ،
نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کے حُکم پر مشتمل وحی ، اور ہر جاندار مخلوق کا ایک ایک جوڑا اُس کشتی پر رکھ لینے کی وحی ، اور اُن علیہ السلام کے نا فرمان کافر بیٹے کو اُن علیہ السلام کے اھل خانہ میں سے خارج قرار دینے کی وحی ،
اور ابراھیم ، اور اسماعیل علیہما السلام کو بیت اللہ کو عبادت کرنے والوں کے لیے پاکیزہ کرنے کے لیے وحی کرنا ،
اپنے رب کی رضا کے لیے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کر دینے کی کوشش کی قبولیت کی خوشخبری کی وحی ، اور مزید دو بیٹے ملنے کی خوشخبری کی وحی ،
اور موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کو لے کر دریا کے درمیان میں سے نکل جانے کے بارے میں وحی کرنا ، وغیرہ ،
::: حاصل ء کلام ::: رسول اور نبی میں فرق یہ ہوا کہ :::
رسول وہ ہوتا ہے جسے نئی شریعت دی گئی ہو ، اور نبی وہ ہوتا ہے جو اُس سے پہلے والے رسول کو دی گئی شریعت کی دعوت و تبلیغ کی تجدید کرتا ہو۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

لنک
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

::::::: قُران کے سایے میں ::: آپ کا علاج اللہ کی کتاب ::::::

 تحریر : عادل سہیل ظفر
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرِّحیم
::::::: قُران کے سایے میں ::: آپ کا علاج اللہ کی کتاب ::::::
قران کریم تمام تر ظاہری اور باطنی ، قلبی ، روحانی ، جسمانی ، دُنیاوی اور اُخروی بیماریوں کا مکمل شِفاء والا علاج ہے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ ہیں ::: )))))
(((((وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ::: اور ہم قران میں سے وہ کچھ نازل فرماتے ہیں جو اِیمان والوں کے لیے رحمت اور شِفاء ہے )))))سُورت الاِسراء / آیت 82،
(((((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ:::اے لوگوں یقینا ً تُم لوگوں کے پاس تُمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور سینوں میں جو(کچھ بھی بیماریاں )ہیں اُن سب کے لیے شِفاء ہے اور اِیمان والوں کے لیے رحمت ہے)))))سُورت یونس / آیت 57،
(((((قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ::: (اے محمد )فرمایے وہ(قُران تو)اِیمان لانے والوں کے لیے شِفاء اور ہدایت ہے )))))سُورت فُصلت /آیت 44،
اگر کوئی مریض دُرست طریقے سے قُران کے ذریعے اپنا علاج کرے ، اور صدق ، اِیمان اور قلبی قبولیت اور غیر متزلزل اعتقاد کے ساتھ اس دواء کو استعمال کرے تو بلا شک کوئی اور دواء اس سے بڑھ کر اچھی اور مؤثر نہیں ہو سکتی ،
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بیماری اللہ کے کلام کے سامنے مزاحمت کر سکے اور قائم رہ سکے ، وہ اللہ جو زمینوں اور آسمانوں کا خالق و مالک اور رب ہے ، اور یہ قُران اُس کا وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ پاش پاش ہو جاتے ، اگر زمین پر نازل کیا جاتا تو زمین کٹ پھٹ کر رہ جاتی ،
پس قلبی ، روحانی یا جسمانی بیماریوں میں سے کوئی بیماری ایسی نہیں جس کے علاج کے بارے میں قران کریم میں راہنمائی نہ ہو ، اس بیماری کے اسباب کے بارے میں نشاندہی نہ ہو ، اور اس سے بچاؤ کے بارے میں ہدایت نہ ہو ،
لیکن یہ سب اسے سجھائی دیتا ہے جِسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس مقدس ترین کتاب کا درست فہم عطاء فرمایا ہو ، اپنی اپنی عقل و سوچ ، لغت و ادب ، اور بے پر اڑنے والے فلسفوں کے مطابق اللہ کے کلام سجھنے کے دعویٰ داروں کو یہ فہم نصیب نہیں ہوتا ، اگر نصیب ہوا ہوتا تو اُن کی قران فہمی اِسی قُران پاک میں مذکور احکام کے مُطابق ہوتی ، اِسی قُران کریم میں مقرر کردہ حُدود میں ہوتی ، لیکن ،،،،، قدر اللہ ما شاء و فعل ، و اللہ المستعان و علیہ التُکلان ::: اللہ نے جو چاہا مقرر فرمایا اور کِیا ، اور صِرف اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے اور صَرف اللہ ہی پر توکل ہے ،
تو جِسے اللہ نے اپنی کتاب مبارک کے دُرُست فہم سے دُور کر دیا اسے اس کتاب کے وہ فوائد کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جِن سے اُس کے دِین دُنیا اور آخرت سب ہی کامیابی اوراس کی زندگی کے ان تینوں پہلوؤں اور مراحل میں پائی جانی والی سب ہی بیماریوں اور کمزوریوں کا علاج میسر ہو سکے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قُران العظیم میں جسمانی امراض کی طِب کے بارے میں اس طرف ہدایت فرمائی ہے کہ یہ تین طرح سے ہے ،
::::::: (1) صحت و جاں کی حفاظت :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا((((( ،،،،،،فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ،،،،،، :::لہذا تُم لوگوں میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو(روزے چھوڑدے اور پھر )بعد میں دوسرے دِنوں میں(چھوڑے ہوئے روزوں کے برابر )اتنی ہی گنتی میں(روزے رکھے) )))))سُورت البقرہ /آیت 184 ، اور آیت 185 میں ابتدائی"""فَ """کی جگہ""" وَ """کے ساتھ یہی ارشاد مکرر ہے ،
اس اِرشاد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سفر اور بیماری کی حالت میں وقتی ور پر فرض روزہ تک چھوڑ دینے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم دِیا ہے ، جِس میں ایک بڑی واضح حِکمت صحت و جاں کی حفاظت کرنا ہے ،
اور اِرشاد فرمایا (((((وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ::: اور تُم لوگ خود کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کی طرف مت لے جاؤ))))) سُورت البقرہ /آیت 195 ،
اس مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اِیمان والوں کو جسمانی ، روحانی ، دُنیاوی اور اُخروی ہر قِسم کی ہلاکت اور تباہی میں خود کو ڈالنے سے منع کیا گیا ہے ، جِس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرنا ہی چاہیے ،
::::::: (2) نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھنا :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے وضوء اور طہارت کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا :::
((((( وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا::: اور اگرتُم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اختیار کرو ، اور اگر تُم لوگ بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو ، یا تُم لوگوں میں سے کوئی رفع ءحاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا (جنسی ملاپ کی صورت میں)عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اور تُم لوگوں کو پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ))))) سُورت المائدہ /آیت 6 ،
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے بیمار کو جسے اپنے جِسم پر پانی استعمال کرنے سے بیماری یا تکلیف میں اضافہ ہونے یا کوئی اور تکلیف واقع ہونے کا اندیشہ ہو ، اس کی صحت کی حفاظت کے لیے پانی استعمال نہ کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم فرمایا کہ پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے پانی کی بجائے پاکیزہ مٹی استعمال کرو ،
اس حکم میں سے یہ حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے اور یہ تعلیم بھی ملتی ہے جِسم کے لیے خارجی اور داخلی طور پر جو کچھ بھی نقصان پہنچانے والی چیز ہو اپنے جِسم کو اس سے بچانا چاہیے ،
::::::: (3) بیماری اور تکلیف کے اسباب اور معاون مواد کو خارج کرنا :::::::
حج کے احکام بیان فرماتے ہوئے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے(((((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ::: اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے مکمل کرو ، اور اگر تُم لوگوں کو کہیں روک دیا جائے تو(قربانی کے لیے جانوروں میں سے )جو کچھ میسر ہو اس میں سے قربانی کرو ، اور جب تک قربانی اپنی جگہ تک نہ پہنچ جائے اُس وقت تک اپنے سر مت منڈواؤ ، لیکن تُم لوگوں میں سے جو کوئی مریض ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جِس کی وجہ سے اسے سر منڈوانا ضروری ہو یا بہتر ہو) تو وہ (سر منڈوا لے لیکن) اُس کے فدیے کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ ادا کرے یا قربانی کرے)))))سُورت البقرہ /آیت 196،
اس آیت مبارکہ میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جس چیز کی جِسم میں بیرونی یا اندرونی طور پر موجودگی کسی بیماری یا تکلیف کا سبب ہو ، یا بیماری یا تکلیف وغیرہ میں اضافے کا سبب ہو یا بیماری یا تکلیف وغیرہ کی شِفاء میں روکاٹ کا سبب ہو ، اس چیز کو ختم کرنا ، اُسے جِسم پر سے ، یا جِسم میں سے خارج کرنا ، اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ، خواہ اس کے لیے کوئی محدود ترین وقت میں ادا کرنے والی خالص عِبادت کے بدلے میں فدیہ وغیرہ دینا پڑے ، لیکن اپنے جِسم اور صحت کی حفاظت کے لیے ایسا کرنے کی بھی اجازت ہے۔
جن چیزوں کو جِسم میں یا جِسم پر ، اللہ کے مقرر کردہ فطری نظام کے خِلاف ، یا اُن چیزوں کے خراب اور فاسد ہو جانے کے باوجود انہیں روکے رکھنا بیماریوں کا سبب بنتا ہے وہ درج ذیل ہیں :::
::: (1) فاسد خون ،
::: (2) پیشاب،
::: (3) پاخانہ،
::: (4) ہوا ،
::: (5)قے (اُلٹی)،
::: (6)چھینک،
::: (7) مَنِی،
::: (8) نیند ،
::: (9) بھوک ،
::: (10) پیاس ،
ان میں سے کسی بھی چیز کو بلا ضرورت اور غیر مناسب طور پر روکے رکھنا کسی نہ کسی مرض کا سبب بنتا ہے ، اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں اس مذکورہ بالا حج اور عمرے کے احکام والی آیت مبارکہ میں ان سب سے کم تر نقصان والی چیز کو خارج کرنے اور حالت احرام میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے ، یعنی سر میں پائی جانے والی گرمی یا سر کے اوپر پائی جانے والی کوئی نقصان دہ چیز جس سے چھٹکارے کے لیے سر مونڈنا پڑے ،
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے اسلوب میں سے ہے(نہ کہ یہی اسلوب ہے) کہ وہ کم تر چیز کا ذِکر فرما کر اعلیٰ کی طرف متوجہ کرتا ہے، پس اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں طِب کے ان تین قوانین اور ان ماخوذ دیگر قواعد کی طرف ہدایت دی ہے ۔
امام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی """ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/فصل الطِب النبوی""" سے ماخوذ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

والد کی فریاد

بوڑھا ہوگیا ہوں میں تھوڑا وقت دے دیا کر
بیٹھ کر دو چار ہی سہی پر مجھ سے باتیں کیا کر
تو ہی میری لاٹھی ہے تو ہی میری روشنی ہے
کچھ پل کیلئے ساتھ میرے راستہ طے کیا کر
مرجاؤں گا ایک دن چلاجاؤں گا چھوڑ کر تجھے
جو بچی ہے زندگی ، لمحے کچھ میرے لئے بھی رکھا کر
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

تاریخ

تاریخ ہزاروں سال میں بس اتنی سی بدلی  ہے
تب دور تھا  پتھر  کا۔  اب  لوگ  ہیں پتھر کے
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

علما کا شعار اور ان کی پہچان

علما کا شعار اور ان کی پہچان
علماء کی پہچان یہ ہے کہ وہ بغیر علم کے کوئی بات نہیں کہتے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل علم کو سخت تاکید کی ہے کہ سنی سنائی بات کو قرآن کی تفسیر کا حصہ نہ بنائیں اور کسی مسئلے  کو نہ جاننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف تحویل کریں۔ قطعی دلیل کے بغیر ظن اور تخمین سے کام لینا تکلف ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی زبان سے کہلوایا ہے : وماانا من المتکلفین۔
"میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"
گویا آپ نے اس تحویل کو علماء کا شعار قرار دیا ہے۔ جن اہل علم میں یہ وصف پایا جائے، علماء کہلانے کے مستحق ہیں۔ 
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

نیا نیا پھل دیکھنے کی دعا


مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ایک سچ

سچ ہے کہ پاکستانی قوم اور سیاستدان صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

کیا یہی اسلام ہے؟











مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

::::::: غیر محرم عورتوں سے مصافحہ ، یعنی ہاتھ ملانا :::::::

::::::: غیر محرم عورتوں سے مصافحہ ، یعنی ہاتھ ملانا :::::::

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
مسلمانوں پر ٹوٹنے والی بڑی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت اللہ کی کتاب کو اپنی مرضی اور اپنی عقل بلکہ زیادہ واضح اور دُرُست الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ اپنی ہوائے نفس کے مطابق سمجھنا ہے ، جس کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی سمجھ کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ بنیادی ترین ذریعے سُنّتء شریفہ سے گلو خلاصی لازم ہوتی ہے ، پس کچھ لوگ ایسے بھی نظر آتے رہتے ہیں جو قران کریم کو اپنی عقل جو شرعی علم و عرفان سے نا بلد ہوتی ہے اس کے بل بوتے پر ، مادی علوم کی معلومات اور ارد گرد کی معاشرتی عادات کی بنا پر سمجھتے ہیں اور اسی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک ان کا راہ ء حق سے انحراف صاف نظر آنے لگتا ہے لیکن وہ بے چارے اپنی منحرف راہ کو ٹھیک سمجھتے رہتے ہیں ،
ہمیں ایسے لوگوں کی باتوں کو اللہ اور اللہ کے مقرر کردہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پرکھنا لازم ہے ،
جو بات ان کسوٹیوں پر پوری نہ اترے اس مردُود قرار دینے میں کسی تأمل کی گنجائش نہیں رکھنی چاہیے ،
پس جو کوئی ایسی بات کرے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان مبارک یا عمل مبارک کے خلاف ہو کوئی اَیمان والا ایسی کسی بات کو کسی بھی صورت میں دُرُست نہیں مان سکتا ،
اپنے مزاج کی تسکین کے لیے اور اپنے ہی جیسے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ، عورت کو اس کی اُس عزت اور تعظیم کی حدود سے باہر لانے اور اس کے ساتھ کھلے میل جول اور ،،،،،،،،،،،، کو کسی نہ کسی طور خلافء اسلام قرار نہ دینے کی کوشش بھی ایسی ہی باتوں میں سے ہے ،
اور انہی باتوں میں سے ایک بات خواتین کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بارے میں کی جاتی ہے کہ اس کی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ، خود ساختہ فلسفوں اور جہالت کے اندھیروں میں گم لوگوں کو اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّتء مبارکہ کی نہ تو خُوشبُو نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی روشنی نصیب ہوتی ہے ،
نا محرم عورتوں سے میل جول کے بارے میں ہماری دین میں شدید ممانعت ہے ، میں یہاں اس سارے ہی موضوع پر بات نہیں کروں گا ، بلکہ صرف اختیار کردہ موضوع کے بارے میں ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مبارکہ کا ذِکر کروں گا ،
اِن شاء اللہ ہر وہ شخص جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عظمت اور ان کے مُقام کو جانتا ہے، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق پہچانتا ہے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہے ،
جِس کے دِل میں اِیمان اِس حال میں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے حقیقی عملی محبت کرتا ہو، ز ُبانی دعوے دار نہ ہو ، اس کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کا ذِکر ہی کسی کام کے کرنے یا کسی کام سے باز رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے ، لہذا میری یہ ساری بات ایسے ہی لوگوں کے لیے ہی ہے ، اپنے خلافء حق فلسفوں اور گمراہ عقل کے اسیروں پر عموما ایسی باتیں اثر نہیں کرتیں ،
::::::: اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ (((((
والله ما مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ في الْمُبَايَعَةِ وما بَايَعَهُنَّ إلا بِقَوْلِهِ ::: اللہ کی قسم ، بیعت کرتے ہوئے (بھی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہاتھ مُبارک کبھی کسی عورت کے ہاتھ کے ساتھ چُھوا تک نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عورتوں کی بیعت صرف اپنے کلام مُبارک کے ذریعے فرمایا کرتے تھے)))))صحیح البخاری / کتاب الشروط / پہلی حدیث ،
یہ تو تھا حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا عمل مبارک ،
جِس کی تاکید انہوں نے اپنے مبارک الفاظ میں یوں فرمائی(((((
إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ :::میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا )))))سُنن النسائی المجتبیٰ /کتاب البیعۃ/باب 12، سنن ابن ماجہ /کتاب الجھاد /باب 43، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے فرمایا حدیث صحیح ہے ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 529،
کسی مریض دل میں یہ خیال گذر سکتا ہے، یا گُزارا جا سکتا ہے کہ یہ عمل اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص تھا ، یا اُن کے اپنے مُقام کا تقاضا تھا ، یا ، یا ، یا ،
تو ایسے خیالات والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک، غیر محرم عورتوں سے مصاٖفحہ کرنے یعنی ہاتھ ملانے کے گُناہ کی شدت سمجھانے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ (((((
لأن يَطعَنَ أحدُكُم بِمخيط ٍ مِن حَديدِ خَيرٌ لهُ مِن أن يَمسَ اِمرأة لا تُحلُ لَهُ ::: تُم میں سے کسی کو لوہے کی کنگھی اُس کے جِسم میں داخل کر کر کے ساتھ زخمی کر دیا جائے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ اُس کا ہاتھ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں))))) السلسہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث226،
اس کے بعد کسی اور کی ایسی بات جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عمل مبارک اور فرمان مبارک کے خلاف ہو ،کون مانے گا ؟؟؟
کوئی ایمان والا !!!
اِن شاء اللہ، نہیں،
و السلام علیکم۔

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

میں کیا کافر ہوں

ایک دیہاتی نے ایک گھر میں چوری کی۔ 
سب کچھ لوٹنے کے بعد جاءنماز بھی اٹھا لیا۔
مالک بولا: یہ جانماز تو چھوڑ جاؤ۔
دیہاتی بولا: میں کیا تمہیں کافر نظر آتا ہوں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

استری کے پیسے

ایک سردار: دھوبی سے۔
استری کے کتنے پیسے لو گے؟
:دھوبی
 پندرہ روپے
سردار نے 15 روپے رکھے اور استری اٹھا کر بھاگ گیا۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بچوں کے لئے ڈبے کا دودھ۔ لمحہ فکریہ


تحریر: حکیم محمد عارف دنیاپوری
ابھی چند سالوں ہی کی بات ہے۔ بچوں کو ماں کے دودھ کے سوا کوئی اور دودھ پلانا معیوب سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ ماں کے دودھ کے ساتھ غیرت، عزت اور تفاخر کے جذبات وابستہ کئے جاتے تھے اسی سے ماں کی مامتا اور ماں کی عظمت کے خیالات بھی جڑے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ سالوں سے بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کا رحجان زوال پزیر ہورہا ہے اور ڈبے کا دودھ پلانے کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے اسے تیار اور فروخت کرنے والی کمپنیاں جدید دور کی اہم ضرورت اور ماؤں کے لئے ماڈرن ہونے کی علامت کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اور ماؤں کے ذہنوں کو اس طرف مائل کرنے کے لئے مختلف قسم کی بے معنی باتیں پیدا کرکے یہ ثابت کرتی ہیں کہ بچے کے لئے ڈبے  کا دودھ نہ صرف  ماں کے دودھ کے برابر غذائیت رکھتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو اس کا استعمال ناگزیر ہے سب سے بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں نے پورے ملک کے دیہاتوں سے دودھ خریدنے کا ایسا بندوبست کیا ہے کہ دیہاتی لوگ جو پہلے دیسی گھی عام استعمال کرتے تھے اب دودھ فروخت کرنے کے لالچ میں اپنے بچوں کے لئے صرف چائے کے لئے دودھ رکھ کر سارا دودھ فروخت کردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بچے کے لئے ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں اس دودھ پلانے کا صرف بچے کو ہی فائدہ نہیں ہوتا ، بلکہ جدید تحقیقات کے مطابق بچے کو دودھ پلانے والی مائیں چھاتی کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں اس دودھ میں وہ تمام غذائی اجزاء جن کی بچے کی بہتر نشوونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے موجود ہوتے ہیں جبکہ ڈبے کے دودھ میں صرف دس فیصد دودھ ہوتا ہے، اور نوے فیصد دوسرے مصنوعی مادے شامل کئے ہوتے ہیں جن سے بچے اکثر ڈائیریا میں مبتلا رہتے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماؤں کو ایسی ترغیب دی جائے کہ وہ بچوں کو ڈبے کے دودھ کی بجائے اپنا دودھ پلائیں تاکہ بچہ اور ماں دونوں ان امراض سے محفوظ رہ سکیں۔
تحریر: حکیم محمد عارف دنیاپوری
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

صرف کالا خضاب لگانا


19۔ صرف کالا خضاب لگانا
عن ابن عباس    قال : قال رسول اللہ ﷺ : ((یکون قوم یخضبون فی آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام لا یریحون رائحتہ الجنۃ))
سیدنا ابن عباس   سے مروی ہے وہ بیان  کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "آخری زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے جیسا سیاہ رنگ کا خضاب لگائیں گے ایسے لوگ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گے۔"
(صحیح ابی داؤد)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

رسوم رواج کیسے بنتے ہیں؟



مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

حلوہ بیضہ مرغ


حلوہ بیضہ مرغ
انڈے دیسی: 8عدد
گھی دیسی :آدھ کلو
بیسن خالص: ایک پاؤ
کشمش: آدھ پاؤ
چینی حسب ضرورت
ترکیب تیاری: سب سے پہلے تھوڑے سے گھی میں بیسن کو سوجی کی طرح بھون لیں اور الگ رکھ لیں پھر باقی گھی میں کشمش اور کچے انڈے توڑ کر پکائیں۔ جب پکنے کی خوشبو آجائے تو بھنا ہوا بیسن اور چینی ملا کر اتار لیں ٹھنڈا ہونے پر جم جائے گا۔ بس تیار ہے۔
مزاج: مقوی ہے۔ مزاج گرم ہے۔
مقدار خوراک: 50 گرام صبح ، 50 گرام شام روزانہ کھائیں۔ جب ختم ہوجائے تو اور تیار کرلیں۔ چھ ہفتے مکمل کورس کریں۔
فوائد:
یہ حلوہ جسم میں گوشت کی مقدار بڑھانے کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔ پولیو کے مریضوں کو کھلانے سے ان کی ٹانگوں میں بھی طاقت آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ یہ حلوہ مقوی حافظہ اور کمزوری نظر کے لئے بھی مفید ہے ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بلا وجہ عورت کا طلاق طلب کرنا


18۔ بلا وجہ عورت کا طلاق طلب کرنا
عن ثوبان   ان رسول اللہ ﷺ قال: ((ایما امراۃ سالت زوجھا طلاقاً من غیر باس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ))
سیدنا ثوبان   سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس عورت نے اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگی اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔"
(صحیح الترمذی)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

عقل مند عورت کی ذہانت مرد کے دل کی چابی ہے

 تحریر: عادل سہیل ظفر
عقل مند عورت کی ذہانت مرد کے دل کی چابی ہے :::::::سب مَرد ایک جیسے نہیں ہوتے ، دوسرے اور کچھ واضح الفاظ میں یہ کہا جانا چاہیے کہ سب ہی مردوں کے دِل ایک جیسے نہیں ہوتے ، کچھ مَرد ایسے ہوتے ہیں جِن کے دِل تک رسائی صِرف محبت آمیز چند الفاظ ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے ، اور کچھ مَرد ایسے ہوتے ہیں جو حُسن جمال کے پیکروں کے لیے بھی مشقت آزما کوششوں کا میدان کھول دیتے ہیں اور قابو ہی نہیں آتے ، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جِن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کے دِل کی راہ اُن کی جیب میں سے ہوتی ہے ، اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جِن پر یہ بات پوری ہوتی ہے کہ اُن کے دِل کا دروازہ ان کے معدے میں ہوتا ہے ، کسی مَرد کو پہنچاننا اور پہچان کر اس کے دِل تک پہنچنا یقیناً ایک عقل مند عورت کا ہی کام ہے ، جو اپنے خاوند کے دِل میں داخل ہونے کا راستہ اپنی عقل مندی سے جان لیتی ہے اور پھر مزید عقل مندی اور ذہانت و فراست کے ذریعے اپنے خاوند کے دِل میں براجمان ہو جاتی ہے ، ایسی عورت اپنے اخلاق ، کردار اور ذات کو انہی انداز و اطوار میں ڈھال لیتی ہے جو اُس کے خاوند کی دِل کے ہر دریچے و در کو اس کے لیے کھول دیتے ہیں اور وہ کسی روکاٹ اور مشکل کے بغیر اس میں داخل رہتی ہے ، مَرد کی فطرت کے مطابق وہ عورت اپنے خاوند کی ہر جائز طلب پوری کرنے میں چاک و چوبند رہتی ہے اور اسے یہ احساس دلاتی رہتی ہے کہ وہ اس کے لیے بہت أہم ہے جِس کے نتیجے میں وہ شخص خود ایک ذمہ دار شخصیت جاننے لگتا ہے اور اپنی بیوی کی محبت کو پہچاننے لگتا ہے اور اس پر اعتماد کرنے لگتا ہے اور ایک یقنی نتیجے کی صُورت میں اس سے محبت کرتا ہے ، اب اگر کوئی عورت اپنی کج عقلی اور بد اخلاقی کی بنا پر معاملہ الٹا کیے رکھے اور اپنے خاوند کا اعتماد حاصل کرنے ، اس کی خدمت کرنے ، اس کو اپنی زندگی کی أہم شخصیت بنانے کی بجائے زبردستی اس سے اپنا آپ منوانے کی کوشش کرے، سچ بات کرنے کی بجائے اپنی خواہشات اور اپنے خیالات کو منوانے کے لیے جھوٹ بولے ، اچھائی کی راہ میں خاوند کی حوصلہ أفزائی کرنے کی بجائے جیسے بھی ہو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ہی مطالبہ رکھے،خاوند کی پریشانی یا تنگی کا خیال کیے بغیر اپنی خوشیوں اور آسانیوں کے حصول کا مطابہ ہی رکھے ، تو یقیناً وہ اپنے خاوندکے لیے ایک نا پسندیدہ ہستی ہی بنے گی ، لیکن اگر وہ پہلے والے معاملے پر عمل پیرا ہوتی ہو تو ان شاء اللہ جلد ہی وہ اپنے خاوند کو اپنی انگلی میں انگوٹھی کی طرح اپنے ساتھ پائے گی ، اِن شاء اللہ ،
مَردوں کے دِلوں کی چابیوں میں سے ایک چابی گھریلو مشکلوں اور کاموں سے مَرد کو دُور رکھنا بھی ہے ، ایسے کام جو خالصتاً عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں ، ایسے کاموں میں مَردوں کو شامل نہ کرنا اور ان کو ایسے کاموں سے دُور آرام کی حالت مہیا کرنا ، اور گھر میں داخل ہوتے ہی کسی مشکل یا کام کی خبر نہ کرنا ، عموماً مَردوں میں گھر میں رہنے کی رغبت پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے ، اور خاوند کو اپنے باہر کے معاملات بھی بیوی کے ساتھ ذِکر کرنے کے اسباب میں سے ہے جو میاں بیوی کے ایک انوکھے اعتماد اور محبت کو اجاگر کرنے والا عمل ہے ،اِن شاء اللہ ،
اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر گھر میں کوئی مشکل یا پریشانی واقع ہو ، یا کوئی ایسا کام آن پڑے جو مَرد کے بھی مشکل اور بھاری ہو اور بیوی اس میں کچھ مدد کرنے کی صلاحیت نہ بھی رکھتی ہو تو بھی وہ خاوند کی مدد کے لیے خود کو پیش کرے ، اس کو اچھے مشورے دے ، اور کچھ نہیں تو اس کے لیے کسی طور راحت و سکون کا انتظام کیے رکھے ، ایسا کرنا خاوندکو اُس کے بارے میں اُس کی بیوی کی محبت ، عقل مندی ، خوش اخلاقی اور دردمندی کا گرویدہ بناتا ہے ، باذن اللہ ،
کچھ مَرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو حاکم و سربراہ کی حیثیت میں دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں ، ایسے مَردوں کے دِلوں کا دروازہ صِرف ان کی اطاعت سے ہی کھل جاتا ہے کہ بیوی ہر معاملے میں خاوند سے اجازت طلب کر لیا کرے ، اور اس کی بات ماننے میں زیادتی رکھے اور اس کے بات نہ ماننے میں کمی رکھے تو نہ صِرف وہ اس کے دِل میں پہنچ جاتی ہے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اُس سے اپنی بات اس طرح منوانے لگتی ہے کہ وہ اُسے اپنا حکم ہی سمجھتا ہے ،
گھر پر اپنی اپنی حکومت کے لیے بحث مباحثے ، لڑائی جھگڑے اور زور آزمائی مَرد و عورت کے مابین محبت کے لیے زہر ء قاتل سے کم نہیں ہوتے ، عقل مند عورت ہمیشہ ان کاموں سے اجتناب برتتی ہے اور اگر اس کا خاوند ہی پہل کرنے اور زیادتی کرنے والا ہو تو بھی صبر کرتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا خاوند ان مَردوں میں سے ہے جو تند روئی اور تلخ کلامی برداشت نہیں کرتے ، اس کے صبر کے نتیجے میں اِن شاء اللہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ عملی طور پر گھر کی حاکم بن جاتی ہے اور خاوند بھی اس پر راضی ہوتا ہے اور اس سے محبت رکھتا ہے ،
قصہ مختصر پتے کی بات یہ ہے کہ کسی مَرد کے دِل تک پہنچنا اور اس میں گھر کرنا کسی عقل مند اور ذہین عورت کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ سب مسلمان خواتین کو ان کی گھر گھرہستی اور گھر والے کو مثبت انداز میں سنبھالے رکھنے کی توفیق دے ۔ و السلام علیکم۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

اللہ نہیں ہے خُدا

 تحریر: عادل سہیل ظفر
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدْہ، وَ نَستَعِینْہ، وَ نَستَغفِرْہ، وَ نَعَوْذْ بَاللَّہِ مِن شْرْورِ انفْسِنَا وَ مَن سِیَّااتِ اعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہْ فَلا مْضِلَّ لَہْ وَ مَن یْضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہْ ، وَ اشھَدْ ان لا اِلٰہَ اِلَّا اللَّہْ وَحدَہْ لا شَرِیکَ لَہْ وَ اشھَدْ ان مْحمَداً عَبدہ، وَ رَسْو لْہ، ۔بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُسکی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُسکا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُسکے رسول ہیں : اللہ کی توحید یعنی واحدانیت میں سے ایک اُسکے ناموں اور صفات کی واحدانیت ہے ، جِسے ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کہا جاتا ہے ، اِس مضمون میں ''' توحید فی الاسماءِ و الصفات ''' یعنی ''' ناموں اور صفات کی توحید ''' کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک گھناؤنی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہ رہا ہوں جِس کا شکار اُردو اور فارسی بولنے والے مسلمان ہو چکے ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کِسی تعصب کاشکار ہوئے بغیر صحیح بات سمجھنے قُبُول کرنے اوراُس پر عمل کرتے ہوئے اُسے نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے بارے میں حُکم دیتے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا و لِلَّہِ الاسماءَ الحُسنیٰ فادعُوُہُ بھا وَ ذَروا الَّذین یُلحِدُونَ فی اَسمائِہِ سَیجزُونَ مَا کانُوا یَعمَلُونَ "اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں لہذا اللہ کو اُن ناموں سے پکارو اور جو اللہ کے ناموں میں الحاد ( یعنی کج روی ) کرتے ہیں اُنہیں ( اُنکے حال پر) چھوڑ دو ( کیونکہ ) بہت جلد یہ اپنے کئیے (ہوئے اِس الحاد )کی سزا پائیں گے" سورت الاعراف / آیت180 ، اور فرمایارَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرضِ وَمَا بَینَہُمَا فَاعبُدہُ وَاصطَبِر لِعِبَادَتِہِ ہَل تَعلَمُ لَہُ سَمِیّاً )( آسمانوں کا اور زمیں کا اور جو کچھ اِن کے درمیان میں ہے سب کا پالنے والا ( اللہ ہی ہے ) لہذا تُم (صِرف ) اُس کی ہی عِبادت کرواور اُس کی عِبادت کے لیے صبر اختیار کیئے رہو ، کیا تُم جانتے ہو کہ کوئی اُس کا ہم نام ہے؟ ) سورت مریم / آیت ٦٥ ،یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی ہم نام نہیں ، اور اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسا نام نہیں جو اللہ نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بتایا ہو ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ کے ناموں کو یاد کرنے اور اُنکے معنیٰ اور مفہوم کو جاننے کے لیے ترغیب دیتے ہوئے فرمایااِنَّ لِلَّہِ تِسعَ و تِسعُونَ اِئسماً مائۃً اِلَّا واحدۃ مَن احصَاھَا دَخَل الجنَّۃَ )( بے شک اللہ کے ننانوے نام ہیں ، ایک کم سو جِس نے ان ناموں کا احاطہ کر لیا ( یعنی اِنکو سمجھ کر یاد کر لیا اور اِن کے مُطابق عمل کیا ) وہ جنّت میں داخل ہو گیا ) صحیح البُخاری حدیث / 2736 ، 7392، اللہ تعالیٰ اپنے اچھے اچھے نام ہونے کی خبر دِی ہے اور اُن ناموں سے پکارنے کا حُکم دیا ہے ، اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے ناموں کوگِن گِن کر بتایا ہے کہیں بھی کوئی عددی نام نہیں ہے ، کوئی ''' خُدا '''' نہیں ، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ ''' محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے ''' خُدا ''' ختم کر دئیے ۔ جی ہاں ، ''' خُدا ''' فارسیوں کا باطل معبود تھا ، جیسے ہندوؤں کا بھگوان ، اور فارسیوں میں بھی ہندوؤں کے بہت سے بھگوانوں کی طرح ایک نہیں تین ''' خُدا ''' تھے ، ایک کو وہ ''' خدائے یزداں اور خدائے نُور''' کہا کرتے تھے اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ نیکی کا خُدا مانتے تھے ، دوسرے کو وہ ''' خدائے اہرمن اور خدائے ظُلمات ''' اور اِس جھوٹے مَن گھڑت معبود کو وہ بدی کا خُدامانتے تھے ، اور تیسرے کو ''' خدائے خدایان ''' یعنی دونوں خُداؤں کا خُدا مانتے تھے ۔ آجکل ہمارےادیب اور شاعر حضرات ،بلکہ وہ لوگ جو دینی عالم کہلاتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو علماء کی صفوف میں ہوتے ہیں ، اُنکی تقریروں اور تحریروں میں اللہ کی بجائے ''' خُدا ''' کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اور اِس سے زیادہ بڑی غلطی یہ کہ معاملات کا ہونا نہ ہونا ، مرنا جینا ''' مشیتِ اللہ ''' کی بجائے ''' مشیتِ یزداں ''' اور ''' مشیتِ ایزدی ''' کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، اور ''' بارگاہِ اللہ ''' کی بجائے ''' بارگاہِ ایزدی ''' میں فریاد کرنے کی تلقین و درس ہوتا ہے، ایک صاحب کی دینی کتاب میں تو رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ''' یزداں ''' کی بارگاہ میں دُعا گو دِکھایا گیا ہے ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتے وقت یا اس کا ذکر کرتے وقت ان ناموں سے یاد کریں جو اس نے قرآن و حدیث میں بتائے ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کے نام کا ترجمہ ہے ''' خُدا ''' تو اُس سے پوچھنا چاہیئے مسلمانوں میں کون ایسا ہو گا جو اللہ کو اللہ کے نام سے نہیں جانتا ، اگر کوئی ہے بھی تو اُسے اللہ کی ذات کی پہچان کروانے کے لیے اُس کے ماحول و معاشرے میں پائے جانے والے معبود کے نام کے ذریعے اللہ کی پہچان کروانی چاہئیے یا اللہ کے نام سے ؟؟؟اِس فلسفے کے مطابق تو ، ہندوستان کے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ اللہ کو بھگوان کہیں ، اور انگریزی بولنے والے مسلمانوں کو اجازت ہونا چاہیئے کہ وہ اللہ کو (God)کہیں ، اور یہ خُدا سے بھی بڑی مصیبت ہے کیونکہ خُدا کی تو مؤنث نہیں لیکن (God) اور بھگوان کی مؤنث بھی ہوتی ہے ،اگر ترجمے والا فلسفہ درست مانا جائے تو پھر ہر علاقے کے مسلمان کو اپنے علاقے اور زبان میں اُس ہستی کا نام اللہ کے لیے استعمال کرنا درست ہو جائے گا جو اُس کے ہاں معبود یا سب سے بڑے معبود کے طور پر معروف ہے ، پھر اُس مسلمان کا اپنے اکیلے حقیقی اور سچے معبود اللہ کے ساتھ کیا ربط اور تعلق رہا ، اُس کی عبادات اور دُعائیں کہاں جائیں گی ؟؟؟ فاء عتبروا یا اولیٰ الابصار ::: پس عِبرت پکڑو اے عقل والو --------------------------------------
 اللہ تو معبودِ حق ہے نہیں ہے وہ خُدا ::: پھر اِسی پر ہی نہیں کِیا اُس قوم نے اِکتفاءاِک اہرمن ، خدائے ظُلمات یعنی خُدا شر والا ::: اللہ ہی خالق ہے خیر اور شر کا اکیلا و تنہاجو کچھ بھی ہوتا ہے ، ہوتا ہے بِمشیتِ اللہ ::: اللہ کو چھوڑ کر گر پُکارا جائے در بارگاہِ یزداںسُن ! بات کِسی اور کی نہیں فرماتا ہے خود اللہ ::: گر پُکارا کِسی اور نام سے تو اللہ نے دِیا حُکم الحاد کاخُدا تو معبودِ باطل تھا اِک قوم کا گَھڑا ہوا ::: اِس اِک کے ساتھ دو اور بھی رکھے تھے بَنادُوجا خُدائے نُور ، خُدا نیکی کا ، کہتے تھے اُسے یزداں ::: ہے ہر کام اُسکا خیر والا نہیں کرتا کام شر کاکیا ہو گی مشیتِ ایزدی ، جب کہ باطل ہے یزداں ::: کہاں جائے گی ؟ اور کیا قُبُول ہو گی وہ دُعاہیں اُسکے لیئے نام پیارے پیارے ، الاسما ءَ الحُسنیٰ ::: پس اِنہی ناموں سے عادِل تُو رہ اللہ کو پُکارتا
تحریر: عادل سہیل
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بد زبانی اور بد مزاجی رکھنے والا


17۔ بد زبانی اور بد مزاجی رکھنے والا
عن حارثۃ   بن وھب قال : قال رسول اللہ ﷺ : ((لا یدخل الجنۃ الجواظ ولا الجعظری))
سیدنا حارثہ   بن وہب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بدزبان اور بدمزاج آدمی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔"
(صحیح ابن داؤد)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

رعایا کو دھوکہ دینے والا حاکم


16۔ رعایا کو دھوکہ دینے والا حاکم
عن معقل  بن یسار قال : سمعت النبی ﷺ یقول: (( ما من وال بلی رعیۃ من المسلمین فیموت وھو غاش لھم الا حرم اللہ علیہ الجنۃ))
سیدنا معقل   بن یسار سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا "مسلمان رعیت پر حکومت کرنے والا حاکم اگر اس حال میں مرا کہ وہ اپنی رعیت سے دھوکہ کر رہا تھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کردے گا۔"
(صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

عورت کا مرد کی مشابہت کرنا

15۔ عورت کا مرد کی مشابہت کرنا
عن ابن عمر  قال : قال رسول اللہ ﷺ ((ثلاثۃ لا یدخلون الجنۃ العاق لوالدیہ والدیوث ورجلۃ النساء))
سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے والدین نافرمان، دیوث اور مرد کی مشابہت کرنے والی عورت، جنت میں نہیں جائے گی۔"
(صحیح الجامع الصغیر)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

طبی اصطلاحات حصہ اول


طبی اصطلاحات حصہ اول
محرک:۔ محرک ایسی غذا، دوا کو کہتے ہیں۔ جو کسی مفرد عضو کو سکون سے فعل میں لے آئیں۔
شدید:۔ محرک سے ذرا تیز اثر رکھنے والی ادویات کو شدید کہتے ہیں۔
ملین:۔   وہ دوا ہوتی ہے جس میں محرک و شدید اثرات کے ساتھ ساتھ فضلات کو خارج کرنے کی قوت بھی ہو۔
مسہل:۔ مسہل دوا میں محرک شدید، ملین اثرات کے علاوہ جلاب آور بھی ہوں۔ ہم مسہل دوا کی مقدار کو کم کرکے محرک ، شدید، اور ملین اثرات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
مقوی:۔ ایسی اشیاء کو کہتے ہیں جو کسی عضو کی طرف خون کو آہستہ آہستہ جذب کرنا شروع کردیں۔ ان میں اغذیہ، ادویہ اور زہر تک شامل ہیں۔ مثلاً اغذیہ میں گوشت۔ ادویہ میں فولاد۔ اور زہروں میں سنکھیا اور کچلہ، مقویات شامل ہیں۔  چونکہ ہر عضو کا علیحدہ علیحدہ مزاج ہوتا ہے اس لئے ان کی طبیعت رکھنے والی اشیاء ہی مقوی ہوسکتی ہیں۔
اکسیر:۔ اکسیر اس دوا کو کہتے ہیں جو نہ صرف فوراً خون میں جذب ہو کر اپنا اثر شروع کردے بلکہ ایک مدت تک اپنے شفائی اثر جسم میں قائم رکھے۔
ایسی ادویات کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی مرض مستقل یا دائمی صورت اختیار کرجائے۔ مثلاً شوگر، دائمی قبض، چھپاکی، سوزاک، خارش، اور چنبل وغیرہ ایسی علامات اس وقت ظاہر ہرتی ہیں جب کوئی خلط خون میں جمع ہوجائے اور پھر تکلیف کا سبب بن جائے۔
تریاق:۔ اس دوا کو کہتے ہیں جو کسی زہر کو باطل کردے یا پہلی حالت کو یک دم نئی حالت میں تبدیل کردے ۔ ایلوپیتھی اور ہومیو پیتھی میں اسے اینٹی ڈوٹ کہتے ہیں۔
مثلاً کھار (الکلی) کے مقابلہ میں ترشی (ایسڈ) ہے۔ اسی طرح افیون کے زہر کو کچلہ زائل کردیتا ہے۔ تریاق قسم کی ادیات کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی زہر سے یا کسی عضو میں ہونے والی مشینی تحریک سے موت واقع ہونے کا خطرہ ہو۔ مثلاً ہیضہ، نمونیا، سرسام اور خونی قے وغیرہ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

سونے کے برتنوں میں پینا


14۔ سونے کے برتنوں میں پینا
عن ام سلمہ  ان رسول اللہ ﷺ قال: ((من شرب فی الاء من ذھب او فضۃ فانما یجر جرفی بطنہ نارا من جھنم))
سیدہ ام سلمہ سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "جو شخص چاندی اور سونے کے برتنوں میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔" (صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا


13۔ شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنا
عن ابی ھریرۃ  عن النبی ﷺ قال: (( مااسفل من الکعبین من الازار ففی النار))۔
سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے ، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "تہبند کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے ہوگا جہنم میں جائے گا۔" (صحیح بخاری)
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

سنت نبویﷺ کو عام کریں

آ ؤ ایک کام کریں سنت نبویﷺ کو عام کریں۔
ہیلو نہیں:  السلام علیکم
او کے نہیں: ان شاء اللہ
بائے نہیں: فی امان اللہ
تھینک یو نہیں: جزاک اللہ
گریٹ نہیں: ماشاء اللہ
آئی ایم فائن نہیں: الحمد للہ
زبردست نہیں: سبحان اللہ
کہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

Inpage2.92

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) میں قانون شفاء


ہومیوپیتھی (علاج بالمثل) میں قانون شفاء
دوسرا طریقہ علاج ہومیو پیتھی ہے۔ یہ حضرات بھی اپنے آپ کو سائینٹی فک اور جدید کہنے کے ساتھ ساتھ بے ضرر کہتے ہیں۔ اس میں سرے سے مرض کا تصور ہی نہیں ہے ۔ بس علامات کو ختم کرنے کے لئے دوا دی جاتی ہے جس کا تعلق نہ تو خون کے کیمیائی اجزاء کے ساتھ ہے۔ اور نہ ہی اعضاء کے افعال کے ساتھ ہے ان کی ادویہ اس قدر قلیل مقدار میں استعمال کی جاتی ہیں کہ کسی چیز کے اضافے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ کسی علامت کو ختم کرنے سے خون کے کیمیائی اجزاء میں ہرگز کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

طب قدیم میں قانون شفاء


طب قدیم میں قانون شفاء
اسی طرح طب یونانی کے حامل اطباء احضرات کا خیال ہے کہ طب قدیم ہی اصل اور قدرتی طریقہ علاج ہے جس میں یقینی اور بے ضرر شفاء ہے۔
اس کی بنیاد اخلاط اور کیفیات پر رکھی گئی ہے جب تک ان میں اعتدال قائم ہے اس کا نام صحت ہے اور ان کے اعتدال کے بگڑ جانے کا نام مرض ہے پھر ہر خلط کا مزاج مقرر ہے پھر تمام اخلاط کا جسم انسان میں اعتدال اضافی مقرر کیا گیا ہے جس پر انسانی صحت قائم ہے امراض کے علاج کی صورت میں صحت کے اسی مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بیماری سے ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ یہی صحت کا فطری قانون ہے۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ایلو پیتھی میں قانون شفاء


ایلو پیتھی میں قانون شفاء
اس وقت جس قدر بھی طریق ہائے علاج ہیں ان میں سب سے زیادہ ایلو پیتھی کا دور دورہ ہے کیونکہ یہ تمام دنیا پر چھایا ہوا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ماڈرن یا جدید اور سائینٹی فک اور سسٹو میٹک اور بے ضرر ہے اس میں شفاء حاصل کرنے کے لئے علامات کو ختم کرنے یا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سبب مرض جراثیم کو مانا گیا ہے۔ اور شفاء حاصل کرنے کے لئے ان جراثیم کو فنا کرنا ضروری سمجھتے ہوئے جراثیم کش ادویات دی جاتی ہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

قانون شفاء


اس دنیا میں جس قدر بھی طریق ہائے علاج پائے جاتے ہیں۔ سب کا دعوی یہی ہے کہ ان کا طریقہ علاج باقی سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ بعض تو یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ ان کے طریقہ علاج میں یقینی اور بے خطاء علاج کی خوبی پائی جاتی ہے۔لیکن سال ہا سال کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے  کہ شفاء منجانب اللہ ہے اور قوت شفاء و مرکز شفاء اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے اور اللہ کی مرضی و منشاء کے بغیر شفاء حاصل نہیں ہوسکتی اس لئے ہر حکیم اور عقل مند معالج مریض کو یہی کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ شفا ہو جائے گی۔ یعنی اگر اللہ کی مرضی و منشاء شامل حال رہی تو شفاء ہوگی ورنہ نہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ