::::::: نبی اور رسول میں فرق :::::::

بِسمِ اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مَن لَا نَبیَّ بَعدہُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
تحریر: عادل سہیل ظفر
::::::: نبی اور رسول میں فرق :::::::

رسول اور نبی میں یقیناً فرق ہے ، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کا ذکر الگ الگ فرمایا ہے ،
(((((وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ::: اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ ہی کوئی نبی ایسا بھیجا ہے کہ جب اس نے تلاوت کی ہو تو شیطان نے اس کی تلاوت میں وسوسے نہ ڈالے ہوں ، پس جو کچھ شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے منسوخ کر دیتا ہے )))))سُورت الحج /آیت 52،
عام طور پر یہ بات معروف ہے کہ نبی وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی ہو، لیکن اُسے اُس وحی کی تبلیغ کا حُکم نہ ہو ،
اور رسول وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی ہو اور اسے اُس وحی کی تبلیغ کا حُکم بھی دِیا گیا ہو ،
لہذا ہر رسول نبی ہوتا ہے ، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا ، اور اس طرح رسول ہونا ، نبی ہونے سے زیادہ أہم اور زیادہ ذمہ داری والا رتبہ ہوتا ہے ،
لیکن یہ بات دُرست نہیں محسوس ہوتی ، کیونکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی سُنّت اور اس کی حِکمت کے مطابق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک شخص کو وحی کرے جو صرف اُس شخص تک ہی محدود رکھے جانے کے لیے ہو اور اس کی تبلیغ یا دعوت دوسروں تک نہ کی جانی ہو ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک بھی اسی معاملے کی دلیل ہے کہ نبی پر کی جانے والی وحی کی بھی تبلیغ مقصود و مطلوب رہی ہے ، صرف اس نبی تک ہی محدود و مقید رکھے جانے کے لیے اُس پر وحی نہیں کی جاتی تھی ،
(((((عُرِضَتْ عَلَىَّ الأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلُ وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّجُلاَنِ ، وَالنَّبِىُّ مَعَهُ الرَّهْطُ ، وَالنَّبِىُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ::: (سفرء معراج کے دوران) مجھے اُمتیں دِکھائی گئیں ، تو کسی نبی کے ساتھ ایک مَرد تھا ، اور کسی نبی کے ساتھ دو مَردتھے ، اور کسی نبی کے ساتھ دس سے زیادہ (اور چالیس سے کم) مَرد تھے ، اور کسی نبے کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا)))))صحیح البخاری/حدیث5752/کتاب الطِب/باب42،
لہذا زیادہ دُرست بات یہ ہے اِن شاء اللہ ، کہ رسول وہ ہوتا ہے جسے نئی شریعت دی گئی ہو ، اور نبی وہ ہوتا ہے جو اُس سے پہلے والے رسول کو دی گئی شریعت کی دعوت و تبلیغ کی تجدید کرتا ہو، جس کی مثال بنی اسرائیل میں مبعوث کیے جانے والے انبیاء علیہم السلام ہیں ، جو کہ موسیٰ علیہ السلام کو دی جانے والی شریعت کی ہی دعوت و تبلیغ کرتے تھے ، اگر وہ دعوت نہ دیتے ہوتے اور ان پر ہونے والی وحی خفیہ رہتی تو پھر اللہ کے یہ فرامین مبارکہ کیا معنی رکھتے ہیں :::
(((((ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ::: ایسا اس لیے ، کہ وہ ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے اور نبیوں کو بغیر کسی حق کے قتل کیا کرتے تھے))))) سُورت آل عمران /آیت112،
(((((سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ::: جو کچھ یہ(یہودی) کہتے ہیں ، اور ان کا بغیر حق کے نبیوں کو قتل کرنا، ہم جلد ہی سب کچھ لکھ لیں گے))))) سُورت /آیت181،
یعنی جنہیں بنی اسرائیل والے یہودی قتل کرتے تھے ، انہیں نبی جاننے کے بعد اور ان سے اللہ کی آیات سن کے اُن آیات کا انکار کرنے کے بعد ہی قتل کرتے تھے ، پس یہ واضح ہوا کہ نبی کو تبلیغ کا حُکم ہوتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہودی ان نبیوں کو نہ جان پاتے اور نہ ہی اُن سے اللہ کی آیات سن کر اُن آیات کا انکار کرتے اور نہ ہی بدبخت یہودی نبیوں کو قتل کرتے ،
ان آیات مبارکہ اور حدیث شریف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبیوں اور رسولوں علیھم السلام کی طرف کی جانے والی ایسی ہر وحی جو اللہ کے دِین سے متعلق ہو اُس کی تبلیغ کی جاتی رہی ، جی ایسی وحی جو کسی نبی یا رسول کے کسی ذاتی معاملے سے متعلق ہو، دینی احکام و عقائد سے متعلق نہ ہو اُس کے بارے میں یہ گُمان کیا جا سکتا ہے کہ اُس کی تبلیغ کا حُکم نہ ہوتا ہوگا ، مثلاً :::
آدم علیہ السلام کو تما م چیزوں کے نام سکھانے کے لیے اُن کی طرف کی جانے والی وحی،
اُن علیہ السلام کو توبہ کے کلمات سکھانے والی وحی ،
نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کے حُکم پر مشتمل وحی ، اور ہر جاندار مخلوق کا ایک ایک جوڑا اُس کشتی پر رکھ لینے کی وحی ، اور اُن علیہ السلام کے نا فرمان کافر بیٹے کو اُن علیہ السلام کے اھل خانہ میں سے خارج قرار دینے کی وحی ،
اور ابراھیم ، اور اسماعیل علیہما السلام کو بیت اللہ کو عبادت کرنے والوں کے لیے پاکیزہ کرنے کے لیے وحی کرنا ،
اپنے رب کی رضا کے لیے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کر دینے کی کوشش کی قبولیت کی خوشخبری کی وحی ، اور مزید دو بیٹے ملنے کی خوشخبری کی وحی ،
اور موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کو لے کر دریا کے درمیان میں سے نکل جانے کے بارے میں وحی کرنا ، وغیرہ ،
::: حاصل ء کلام ::: رسول اور نبی میں فرق یہ ہوا کہ :::
رسول وہ ہوتا ہے جسے نئی شریعت دی گئی ہو ، اور نبی وہ ہوتا ہے جو اُس سے پہلے والے رسول کو دی گئی شریعت کی دعوت و تبلیغ کی تجدید کرتا ہو۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔

لنک
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

::::::: قُران کے سایے میں ::: آپ کا علاج اللہ کی کتاب ::::::

 تحریر : عادل سہیل ظفر
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرِّحیم
::::::: قُران کے سایے میں ::: آپ کا علاج اللہ کی کتاب ::::::
قران کریم تمام تر ظاہری اور باطنی ، قلبی ، روحانی ، جسمانی ، دُنیاوی اور اُخروی بیماریوں کا مکمل شِفاء والا علاج ہے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ ہیں ::: )))))
(((((وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ::: اور ہم قران میں سے وہ کچھ نازل فرماتے ہیں جو اِیمان والوں کے لیے رحمت اور شِفاء ہے )))))سُورت الاِسراء / آیت 82،
(((((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ:::اے لوگوں یقینا ً تُم لوگوں کے پاس تُمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور سینوں میں جو(کچھ بھی بیماریاں )ہیں اُن سب کے لیے شِفاء ہے اور اِیمان والوں کے لیے رحمت ہے)))))سُورت یونس / آیت 57،
(((((قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ::: (اے محمد )فرمایے وہ(قُران تو)اِیمان لانے والوں کے لیے شِفاء اور ہدایت ہے )))))سُورت فُصلت /آیت 44،
اگر کوئی مریض دُرست طریقے سے قُران کے ذریعے اپنا علاج کرے ، اور صدق ، اِیمان اور قلبی قبولیت اور غیر متزلزل اعتقاد کے ساتھ اس دواء کو استعمال کرے تو بلا شک کوئی اور دواء اس سے بڑھ کر اچھی اور مؤثر نہیں ہو سکتی ،
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بیماری اللہ کے کلام کے سامنے مزاحمت کر سکے اور قائم رہ سکے ، وہ اللہ جو زمینوں اور آسمانوں کا خالق و مالک اور رب ہے ، اور یہ قُران اُس کا وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ پاش پاش ہو جاتے ، اگر زمین پر نازل کیا جاتا تو زمین کٹ پھٹ کر رہ جاتی ،
پس قلبی ، روحانی یا جسمانی بیماریوں میں سے کوئی بیماری ایسی نہیں جس کے علاج کے بارے میں قران کریم میں راہنمائی نہ ہو ، اس بیماری کے اسباب کے بارے میں نشاندہی نہ ہو ، اور اس سے بچاؤ کے بارے میں ہدایت نہ ہو ،
لیکن یہ سب اسے سجھائی دیتا ہے جِسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس مقدس ترین کتاب کا درست فہم عطاء فرمایا ہو ، اپنی اپنی عقل و سوچ ، لغت و ادب ، اور بے پر اڑنے والے فلسفوں کے مطابق اللہ کے کلام سجھنے کے دعویٰ داروں کو یہ فہم نصیب نہیں ہوتا ، اگر نصیب ہوا ہوتا تو اُن کی قران فہمی اِسی قُران پاک میں مذکور احکام کے مُطابق ہوتی ، اِسی قُران کریم میں مقرر کردہ حُدود میں ہوتی ، لیکن ،،،،، قدر اللہ ما شاء و فعل ، و اللہ المستعان و علیہ التُکلان ::: اللہ نے جو چاہا مقرر فرمایا اور کِیا ، اور صِرف اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے اور صَرف اللہ ہی پر توکل ہے ،
تو جِسے اللہ نے اپنی کتاب مبارک کے دُرُست فہم سے دُور کر دیا اسے اس کتاب کے وہ فوائد کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جِن سے اُس کے دِین دُنیا اور آخرت سب ہی کامیابی اوراس کی زندگی کے ان تینوں پہلوؤں اور مراحل میں پائی جانی والی سب ہی بیماریوں اور کمزوریوں کا علاج میسر ہو سکے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قُران العظیم میں جسمانی امراض کی طِب کے بارے میں اس طرف ہدایت فرمائی ہے کہ یہ تین طرح سے ہے ،
::::::: (1) صحت و جاں کی حفاظت :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا((((( ،،،،،،فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ،،،،،، :::لہذا تُم لوگوں میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو(روزے چھوڑدے اور پھر )بعد میں دوسرے دِنوں میں(چھوڑے ہوئے روزوں کے برابر )اتنی ہی گنتی میں(روزے رکھے) )))))سُورت البقرہ /آیت 184 ، اور آیت 185 میں ابتدائی"""فَ """کی جگہ""" وَ """کے ساتھ یہی ارشاد مکرر ہے ،
اس اِرشاد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سفر اور بیماری کی حالت میں وقتی ور پر فرض روزہ تک چھوڑ دینے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم دِیا ہے ، جِس میں ایک بڑی واضح حِکمت صحت و جاں کی حفاظت کرنا ہے ،
اور اِرشاد فرمایا (((((وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ::: اور تُم لوگ خود کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کی طرف مت لے جاؤ))))) سُورت البقرہ /آیت 195 ،
اس مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اِیمان والوں کو جسمانی ، روحانی ، دُنیاوی اور اُخروی ہر قِسم کی ہلاکت اور تباہی میں خود کو ڈالنے سے منع کیا گیا ہے ، جِس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرنا ہی چاہیے ،
::::::: (2) نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھنا :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے وضوء اور طہارت کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا :::
((((( وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا::: اور اگرتُم جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اختیار کرو ، اور اگر تُم لوگ بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو ، یا تُم لوگوں میں سے کوئی رفع ءحاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا (جنسی ملاپ کی صورت میں)عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اور تُم لوگوں کو پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ))))) سُورت المائدہ /آیت 6 ،
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے بیمار کو جسے اپنے جِسم پر پانی استعمال کرنے سے بیماری یا تکلیف میں اضافہ ہونے یا کوئی اور تکلیف واقع ہونے کا اندیشہ ہو ، اس کی صحت کی حفاظت کے لیے پانی استعمال نہ کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم فرمایا کہ پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے پانی کی بجائے پاکیزہ مٹی استعمال کرو ،
اس حکم میں سے یہ حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے اور یہ تعلیم بھی ملتی ہے جِسم کے لیے خارجی اور داخلی طور پر جو کچھ بھی نقصان پہنچانے والی چیز ہو اپنے جِسم کو اس سے بچانا چاہیے ،
::::::: (3) بیماری اور تکلیف کے اسباب اور معاون مواد کو خارج کرنا :::::::
حج کے احکام بیان فرماتے ہوئے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے(((((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ::: اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے مکمل کرو ، اور اگر تُم لوگوں کو کہیں روک دیا جائے تو(قربانی کے لیے جانوروں میں سے )جو کچھ میسر ہو اس میں سے قربانی کرو ، اور جب تک قربانی اپنی جگہ تک نہ پہنچ جائے اُس وقت تک اپنے سر مت منڈواؤ ، لیکن تُم لوگوں میں سے جو کوئی مریض ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جِس کی وجہ سے اسے سر منڈوانا ضروری ہو یا بہتر ہو) تو وہ (سر منڈوا لے لیکن) اُس کے فدیے کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ ادا کرے یا قربانی کرے)))))سُورت البقرہ /آیت 196،
اس آیت مبارکہ میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جس چیز کی جِسم میں بیرونی یا اندرونی طور پر موجودگی کسی بیماری یا تکلیف کا سبب ہو ، یا بیماری یا تکلیف وغیرہ میں اضافے کا سبب ہو یا بیماری یا تکلیف وغیرہ کی شِفاء میں روکاٹ کا سبب ہو ، اس چیز کو ختم کرنا ، اُسے جِسم پر سے ، یا جِسم میں سے خارج کرنا ، اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ، خواہ اس کے لیے کوئی محدود ترین وقت میں ادا کرنے والی خالص عِبادت کے بدلے میں فدیہ وغیرہ دینا پڑے ، لیکن اپنے جِسم اور صحت کی حفاظت کے لیے ایسا کرنے کی بھی اجازت ہے۔
جن چیزوں کو جِسم میں یا جِسم پر ، اللہ کے مقرر کردہ فطری نظام کے خِلاف ، یا اُن چیزوں کے خراب اور فاسد ہو جانے کے باوجود انہیں روکے رکھنا بیماریوں کا سبب بنتا ہے وہ درج ذیل ہیں :::
::: (1) فاسد خون ،
::: (2) پیشاب،
::: (3) پاخانہ،
::: (4) ہوا ،
::: (5)قے (اُلٹی)،
::: (6)چھینک،
::: (7) مَنِی،
::: (8) نیند ،
::: (9) بھوک ،
::: (10) پیاس ،
ان میں سے کسی بھی چیز کو بلا ضرورت اور غیر مناسب طور پر روکے رکھنا کسی نہ کسی مرض کا سبب بنتا ہے ، اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں اس مذکورہ بالا حج اور عمرے کے احکام والی آیت مبارکہ میں ان سب سے کم تر نقصان والی چیز کو خارج کرنے اور حالت احرام میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے ، یعنی سر میں پائی جانے والی گرمی یا سر کے اوپر پائی جانے والی کوئی نقصان دہ چیز جس سے چھٹکارے کے لیے سر مونڈنا پڑے ،
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے اسلوب میں سے ہے(نہ کہ یہی اسلوب ہے) کہ وہ کم تر چیز کا ذِکر فرما کر اعلیٰ کی طرف متوجہ کرتا ہے، پس اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں طِب کے ان تین قوانین اور ان ماخوذ دیگر قواعد کی طرف ہدایت دی ہے ۔
امام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی """ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/فصل الطِب النبوی""" سے ماخوذ۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

والد کی فریاد

بوڑھا ہوگیا ہوں میں تھوڑا وقت دے دیا کر
بیٹھ کر دو چار ہی سہی پر مجھ سے باتیں کیا کر
تو ہی میری لاٹھی ہے تو ہی میری روشنی ہے
کچھ پل کیلئے ساتھ میرے راستہ طے کیا کر
مرجاؤں گا ایک دن چلاجاؤں گا چھوڑ کر تجھے
جو بچی ہے زندگی ، لمحے کچھ میرے لئے بھی رکھا کر
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

تاریخ

تاریخ ہزاروں سال میں بس اتنی سی بدلی  ہے
تب دور تھا  پتھر  کا۔  اب  لوگ  ہیں پتھر کے
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

علما کا شعار اور ان کی پہچان

علما کا شعار اور ان کی پہچان
علماء کی پہچان یہ ہے کہ وہ بغیر علم کے کوئی بات نہیں کہتے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اہل علم کو سخت تاکید کی ہے کہ سنی سنائی بات کو قرآن کی تفسیر کا حصہ نہ بنائیں اور کسی مسئلے  کو نہ جاننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف تحویل کریں۔ قطعی دلیل کے بغیر ظن اور تخمین سے کام لینا تکلف ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی زبان سے کہلوایا ہے : وماانا من المتکلفین۔
"میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔"
گویا آپ نے اس تحویل کو علماء کا شعار قرار دیا ہے۔ جن اہل علم میں یہ وصف پایا جائے، علماء کہلانے کے مستحق ہیں۔ 
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

نیا نیا پھل دیکھنے کی دعا


مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

ایک سچ

سچ ہے کہ پاکستانی قوم اور سیاستدان صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

کیا یہی اسلام ہے؟











مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

::::::: غیر محرم عورتوں سے مصافحہ ، یعنی ہاتھ ملانا :::::::

::::::: غیر محرم عورتوں سے مصافحہ ، یعنی ہاتھ ملانا :::::::

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
مسلمانوں پر ٹوٹنے والی بڑی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت اللہ کی کتاب کو اپنی مرضی اور اپنی عقل بلکہ زیادہ واضح اور دُرُست الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ اپنی ہوائے نفس کے مطابق سمجھنا ہے ، جس کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی سمجھ کے لیے اللہ کی طرف سے مقرر کردہ بنیادی ترین ذریعے سُنّتء شریفہ سے گلو خلاصی لازم ہوتی ہے ، پس کچھ لوگ ایسے بھی نظر آتے رہتے ہیں جو قران کریم کو اپنی عقل جو شرعی علم و عرفان سے نا بلد ہوتی ہے اس کے بل بوتے پر ، مادی علوم کی معلومات اور ارد گرد کی معاشرتی عادات کی بنا پر سمجھتے ہیں اور اسی طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک ان کا راہ ء حق سے انحراف صاف نظر آنے لگتا ہے لیکن وہ بے چارے اپنی منحرف راہ کو ٹھیک سمجھتے رہتے ہیں ،
ہمیں ایسے لوگوں کی باتوں کو اللہ اور اللہ کے مقرر کردہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پرکھنا لازم ہے ،
جو بات ان کسوٹیوں پر پوری نہ اترے اس مردُود قرار دینے میں کسی تأمل کی گنجائش نہیں رکھنی چاہیے ،
پس جو کوئی ایسی بات کرے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان مبارک یا عمل مبارک کے خلاف ہو کوئی اَیمان والا ایسی کسی بات کو کسی بھی صورت میں دُرُست نہیں مان سکتا ،
اپنے مزاج کی تسکین کے لیے اور اپنے ہی جیسے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ، عورت کو اس کی اُس عزت اور تعظیم کی حدود سے باہر لانے اور اس کے ساتھ کھلے میل جول اور ،،،،،،،،،،،، کو کسی نہ کسی طور خلافء اسلام قرار نہ دینے کی کوشش بھی ایسی ہی باتوں میں سے ہے ،
اور انہی باتوں میں سے ایک بات خواتین کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بارے میں کی جاتی ہے کہ اس کی اسلام میں کوئی ممانعت نہیں ، خود ساختہ فلسفوں اور جہالت کے اندھیروں میں گم لوگوں کو اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّتء مبارکہ کی نہ تو خُوشبُو نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی روشنی نصیب ہوتی ہے ،
نا محرم عورتوں سے میل جول کے بارے میں ہماری دین میں شدید ممانعت ہے ، میں یہاں اس سارے ہی موضوع پر بات نہیں کروں گا ، بلکہ صرف اختیار کردہ موضوع کے بارے میں ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّتء مبارکہ کا ذِکر کروں گا ،
اِن شاء اللہ ہر وہ شخص جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عظمت اور ان کے مُقام کو جانتا ہے، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق پہچانتا ہے اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہے ،
جِس کے دِل میں اِیمان اِس حال میں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے حقیقی عملی محبت کرتا ہو، ز ُبانی دعوے دار نہ ہو ، اس کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کا ذِکر ہی کسی کام کے کرنے یا کسی کام سے باز رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے ، لہذا میری یہ ساری بات ایسے ہی لوگوں کے لیے ہی ہے ، اپنے خلافء حق فلسفوں اور گمراہ عقل کے اسیروں پر عموما ایسی باتیں اثر نہیں کرتیں ،
::::::: اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ (((((
والله ما مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ في الْمُبَايَعَةِ وما بَايَعَهُنَّ إلا بِقَوْلِهِ ::: اللہ کی قسم ، بیعت کرتے ہوئے (بھی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ہاتھ مُبارک کبھی کسی عورت کے ہاتھ کے ساتھ چُھوا تک نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عورتوں کی بیعت صرف اپنے کلام مُبارک کے ذریعے فرمایا کرتے تھے)))))صحیح البخاری / کتاب الشروط / پہلی حدیث ،
یہ تو تھا حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا عمل مبارک ،
جِس کی تاکید انہوں نے اپنے مبارک الفاظ میں یوں فرمائی(((((
إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ :::میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا )))))سُنن النسائی المجتبیٰ /کتاب البیعۃ/باب 12، سنن ابن ماجہ /کتاب الجھاد /باب 43، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے فرمایا حدیث صحیح ہے ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 529،
کسی مریض دل میں یہ خیال گذر سکتا ہے، یا گُزارا جا سکتا ہے کہ یہ عمل اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص تھا ، یا اُن کے اپنے مُقام کا تقاضا تھا ، یا ، یا ، یا ،
تو ایسے خیالات والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک، غیر محرم عورتوں سے مصاٖفحہ کرنے یعنی ہاتھ ملانے کے گُناہ کی شدت سمجھانے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ (((((
لأن يَطعَنَ أحدُكُم بِمخيط ٍ مِن حَديدِ خَيرٌ لهُ مِن أن يَمسَ اِمرأة لا تُحلُ لَهُ ::: تُم میں سے کسی کو لوہے کی کنگھی اُس کے جِسم میں داخل کر کر کے ساتھ زخمی کر دیا جائے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ اُس کا ہاتھ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں))))) السلسہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث226،
اس کے بعد کسی اور کی ایسی بات جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عمل مبارک اور فرمان مبارک کے خلاف ہو ،کون مانے گا ؟؟؟
کوئی ایمان والا !!!
اِن شاء اللہ، نہیں،
و السلام علیکم۔

مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

میں کیا کافر ہوں

ایک دیہاتی نے ایک گھر میں چوری کی۔ 
سب کچھ لوٹنے کے بعد جاءنماز بھی اٹھا لیا۔
مالک بولا: یہ جانماز تو چھوڑ جاؤ۔
دیہاتی بولا: میں کیا تمہیں کافر نظر آتا ہوں۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

استری کے پیسے

ایک سردار: دھوبی سے۔
استری کے کتنے پیسے لو گے؟
:دھوبی
 پندرہ روپے
سردار نے 15 روپے رکھے اور استری اٹھا کر بھاگ گیا۔
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ

بچوں کے لئے ڈبے کا دودھ۔ لمحہ فکریہ


تحریر: حکیم محمد عارف دنیاپوری
ابھی چند سالوں ہی کی بات ہے۔ بچوں کو ماں کے دودھ کے سوا کوئی اور دودھ پلانا معیوب سمجھا جاتا تھا ، کیونکہ ماں کے دودھ کے ساتھ غیرت، عزت اور تفاخر کے جذبات وابستہ کئے جاتے تھے اسی سے ماں کی مامتا اور ماں کی عظمت کے خیالات بھی جڑے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ سالوں سے بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کا رحجان زوال پزیر ہورہا ہے اور ڈبے کا دودھ پلانے کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے اسے تیار اور فروخت کرنے والی کمپنیاں جدید دور کی اہم ضرورت اور ماؤں کے لئے ماڈرن ہونے کی علامت کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اور ماؤں کے ذہنوں کو اس طرف مائل کرنے کے لئے مختلف قسم کی بے معنی باتیں پیدا کرکے یہ ثابت کرتی ہیں کہ بچے کے لئے ڈبے  کا دودھ نہ صرف  ماں کے دودھ کے برابر غذائیت رکھتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو اس کا استعمال ناگزیر ہے سب سے بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان کمپنیوں نے پورے ملک کے دیہاتوں سے دودھ خریدنے کا ایسا بندوبست کیا ہے کہ دیہاتی لوگ جو پہلے دیسی گھی عام استعمال کرتے تھے اب دودھ فروخت کرنے کے لالچ میں اپنے بچوں کے لئے صرف چائے کے لئے دودھ رکھ کر سارا دودھ فروخت کردیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بچے کے لئے ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں اس دودھ پلانے کا صرف بچے کو ہی فائدہ نہیں ہوتا ، بلکہ جدید تحقیقات کے مطابق بچے کو دودھ پلانے والی مائیں چھاتی کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں اس دودھ میں وہ تمام غذائی اجزاء جن کی بچے کی بہتر نشوونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے موجود ہوتے ہیں جبکہ ڈبے کے دودھ میں صرف دس فیصد دودھ ہوتا ہے، اور نوے فیصد دوسرے مصنوعی مادے شامل کئے ہوتے ہیں جن سے بچے اکثر ڈائیریا میں مبتلا رہتے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماؤں کو ایسی ترغیب دی جائے کہ وہ بچوں کو ڈبے کے دودھ کی بجائے اپنا دودھ پلائیں تاکہ بچہ اور ماں دونوں ان امراض سے محفوظ رہ سکیں۔
تحریر: حکیم محمد عارف دنیاپوری
مکمل تحریر۔۔۔۔۔ِ